ماموں اپنے بھانجے کا ذی رحم وارث ہوتا ہے
راوی:
وعن المقدام قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا أولى بكل مؤمن من نفسه فمن ترك دينا أو ضيعة فإلينا ومن ترك مالا فلورثته وأنا مولى من لا مولى له أرث ماله وأفك عانه والخال وارث من لا وارث له يرث ماله ويفك عانه " . وفي رواية : " وأنا وارث من لا وارث له أعقل عنه وأرثه والخال وارث من لا وارث له يعقل عنه ويرثه " . رواه أبو داود
اور حضرت مقدام کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ہر مؤمن کے حق میں خود اس سے زیادہ عزیز وخیر خواہ ہیں لہذا جو شخص اپنے ذمہ عیال یا قرض چھوڑ کر مرے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے عیال کی پرورش میرے ذمہ ہے اور جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔ اور میں اس شخص کا کار ساز یعنی منتظم ہوں جس کا کوئی کار ساز نہیں چنانچہ میں اس کے مال کا وارث ہوتا ہوں اور اس کے قیدی کو نجات دلاتا ہوں یعنی اس کی زندگی میں اس پر جو خون بہا لازم ہوا تھا اور وہ خون بہا ادا کرنے سے پہلے مر گیا تو اس کی وجہ سے چونکہ اس کا نفس عالم برزخ میں قیدی کیطرح سختیوں میں مبتلا ہے اس لئے میں اس کا خون بہا اپنے پاس سے ادا کر کے اسے نجات دلاتا ہوں اور ماموں اس شخص کا وارث ہوتا ہے جس کا کوئی وارث نہیں وہ میت کی میراث پاتا ہے اور اس کے قیدی کو نجات دلاتا ہے (یعنی جش شخص کے ذوی الفروض اور عصبی وارث نہیں ہوتے اس کا ماموں کہ جو اس کے ذوی الارحام میں سے ہے اس کا وارث ہوتا ہے چنانچہ وہ میت کا ترکہ پاتا ہے اور اس پر جو خون بہا وغیرہ لازم تھا اس کو ادا کر کے اس کی روح کو عالم برزخ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ) ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس شخص کا وارث ہوتا ہوں جس کا کوئی وارث نہیں چنانچہ میں اس کی طرف سے اس کا خون بہا ادا کرتا ہوں اور اس کا وارث ہو جاتا ہوں یعنی اس کا ترکہ اپنی نگرانی میں لے کربیت المال میں داخل کر دیتا ہوں اور جس شخص کا ذوی الفروض وعصبات میں سے) کوئی وارث نہیں ہوتا تو ذوی الارحام میں سے) اس کا ماموں اس کا وارث ہوتا ہے جو اس کی طرف سے خون بہا ادا کرتا ہے اور اس کی میراث پاتا ہے ( ابوداؤد)