مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 277

عورت کن تین آدمیوں کی میراث پاتی ہے

راوی:

وعن وائلة بن الأسقع قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " تحوز المرأة ثلاث مواريث عتيقها ولقيطها وولدها الذي لاعنت عنه " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه

اور حضرت واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت تین آدمیوں کی میراث لیتی ہے ایک تو وہ اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی دوسرے اپنے لقیط کی اور تیسرے اپنے بچے کی جس کی وجہ سے لعان ہوا ( ترمذی ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح :
اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی" سے مراد یہ ہے کہ مثلًا ایک عورت نے کسی غلام کو آزاد کیا اور وہ آزاد شدہ غلام اس حالت میں مرا کہ اس کا کوئی نسبی عصبہ نہیں تھا تو جس طرح ایک مرد اس صورت میں اپنے آزاد شدہ غلام کا وارث ہوتا ہے اسی طرح یہ عورت بھی اپنے اس آزاد شدہ غلام کی میراث پائیگی۔
دوسرے اپنے لقیط کی" سے مراد یہ ہے کہ مثلا کسی عورت نے کہیں راستہ میں پڑا ہوا کوئی بچہ پایا اور اسے پالا پوسا تو اب یہ عورت اس کی وارث ہوگی کہ اس لقیط کے مرنے کے بعد اس کی میراث پائیگی چنانچہ حضرت اسحق بن راہویہ کا یہی مسلک ہے۔ لیکن علماء کا یہ مسلک ہے کہ ملتقط(یعنی لقیط کو اٹھانیوالا) حق ولاء نہیں رکھتا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی بچہ کو اٹھا لے اور اسے پالے پوسے تو وہ اس کی وارث نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد گرامی حدیث (لا ولاء لہا الولا ولاء العتاقۃ) کے ذریعہ لقیط کے حق ولاء کو آزاد کرنیوالے کے ساتھ مختص کیا ہے چنانچہ ان علماء کے نزدیک یہ حکم کہ عورت اپنے لقیط کی وارث ہوتی ہے منسوخ ہے۔
البتہ قاضی نے اس حکم کا جو مطلب بیان کیا ہے اس کے پیش نظر اس کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ لقیط کا چھوڑا ہوا مال واسباب بیت المال کا حق ہے ہاں جس عورت نے لقیط کو اٹھایا اور اسے پالا پوسا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں اس بات کی زیادہ مستحق اور اولی ہے کہ بیت المال کی طرف سے وہ مال جو اس لقیط نے چھوڑا ہے اس عورت پر صرف کیا جائے۔
لعان اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں ہے اور وہ اس کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے پر لعنت ملامت کریں اس کا تفصیلی ذکر ان شاء اللہ باب اللعان میں آئگا لہذا جس بچہ کے پیدا ہونے میں لعان ہوا ہے اس بچہ کا نسب باپ سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ وہ بچہ اور باپ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں کیونکہ وارثت کا تعلق نسب سے ہوتا ہے جو اس صورت میں منتفی ہوتا ہے البتہ اس بچہ کا نسب چونکہ ماں سے ثابت ہوتا ہے اس لئے وہ بچہ اور ماں آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔ ولد الزنا کا بھی یہی حکم ہے

یہ حدیث شیئر کریں