ران، جسم کا مستور حصہ ہے
راوی:
وعن جرهد : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أما علمت أن الفخذ عورة " . رواه الترمذي وأبو داود
(2/205)
3113 – [ 16 ] ( ضعيف )
وعن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال له : " يا علي لا تبرز فخذك ولا تنظر إلى فخذ حي ولا ميت " . رواه أبو داود وابن ماجه
(2/205)
3114 – [ 17 ] ( ضعيف )
وعن محمد بن جحش قال : مر رسول الله صلى الله عليه و سلم على معمر وفخذه مكشوفتان قال : " يا معمر غط فخذيك فإن الفخذين عورة " . رواه في شرح السنة
اور حضرت جرہد کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر ہے ( یعنی ران جسم کا وہ حصہ ہے جسے چھپا ہوا ہونا چاہئے ( ترمذی ابوداؤد)
تشریح :
کتاب اسد الغابہ۔ میں یہ لکھا ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں حضرت جرہد کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ ان کی ران کھلی ہوئی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی ران ڈھانک لو کیونکہ ران ستر ہے ۔ لہذا یہ ارشاد گرامی ان علماء کے مسلک کے خلاف دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ران ستر نہیں ہے، چنانچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ان کے نزدیک ران ستر میں داخل نہیں ہے۔
اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ علی اپنی ران کو لوگوں کے سامنے مت کھو لو اور نہ زندہ شخص کی ران دیکھو اور نہ مردے کی ران دیکھو ( ابوداؤد ابن ماجہ)
تشریح :
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ستر کے حکم میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں یعنی جس طرح زندہ شخص کے جسم کے ان حصوں کو دیکھنا ممنوع ہے جن کا چھپانا جانا شرعی طور پر ضروری ہے اسی طرح مردہ کے جسم کے ان حصوں کو دیکھنا بھی ممنوع ہے۔
اور حضرت محمد بن جحش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معمر کے پاس سے اس حال میں گزرے کہ ان کی دونوں رانیں کھلی ہوئی تھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معمر اپنی رانوں کو چھپا لو کیونکہ ران ستر ہے ( شرح السنۃ)