اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہو
راوی:
وعن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان " . رواه الترمذي
(2/206)
3119 – [ 22 ] ( لم تتم دراسته )
وعن جابر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا تلجوا على المغيبات فإن الشيطان يجري من أحدكم مجرى الدم " قلنا : ومنك يا رسول الله ؟ قال : " ومني ولكن الله أعانني عليه فأسلم " . رواه الترمذي
اور حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یک جا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ( ترمذی)
تشریح :
جب دو اجنبی مرد و عورت کہیں خلوت میں جمع ہوتے ہیں تو وہاں شیطان فورًا پہنچ جاتا ہے جو ان دونوں کے جنسی جذبات کو برانگیختہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان پر جنسی ہیجان کا غلبہ ہو جاتا ہے اور وہ بدرکای میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تم کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں یکجا ہونے کا کوئی موقع ہی نہ آنے دو کہ شیطان تمہارے درمیان آ جائے اور تمہیں برائی کے راستہ پر لگا دے۔
اور حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جاؤ جن کے خاوند موجود نہ ہوں کیونکہ تہارے جسموں میں خون دوڑنے کی جگہ شیطان دوڑتا رہتا ہے یعنی شطیان کا بہکاوا اور اس کا تصرف انسان کے تمام رگ و پوست میں سرایت کرتا ہے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں بھی دوڑتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میرے جسم میں بھی دوڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کے مقابلہ پر میری اعانت فرمائی ہے چنانچہ میں اس سے محفوظ رہتا ہوں (ترمذی)
تشریح :
یوں تو کسی غیرمحرم عورت کے پاس تنہائی میں جانا اس کے ساتھ اختلاط رکھنا ممنوع ہے لیکن اس حدیث میں ان عورتوں کا کہ جن کے خاوند گھر پر موجود نہ ہوں مثلًا باہر سفر میں گئے ہوں خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر شادی کے بعد چونکہ عورتوں کے جنسی جذبات بیدار ہو جاتے ہیں اور ان پر نفسانی خواہش کا غلبہ رہتا ہے اس لئے ان کے خاوند کی غیر موجودگی میں ان کے پاس تنہائی میں غیرمحرم مرد کا جانا برائی میں مبتلا ہو جانے کے بہت زیادہ احتمال رکھتا ہے۔
لفظ مجری الدم کا ترجمہ حضرت شیخ عبد الحق دہلوی نے خون دوڑنے کی جگہ یعنی رگ کیا ہے جیسا کہ یہاں نقل کیا گیا ہے لیکن ملا علی قاری نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ تمہارے اندر شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح تمہاری رگوں میں خون دوڑتا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا،، یعنی جس طرح تمہاری رگوں میں خون دوڑتا رہتا ہے اور تم اسے دیکھ نہیں پاتے ایسے ہی تم پر شیطان اس طرح مسلط اور چھپا ہوا ہے کہ باوجودیکہ وہ تم پر اپنا تصرف کرتا رہتا ہے لیکن تم اسے دیکھ نہیں پاتے مآل کار اور نتیجہ کے اعتبار سے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔
لفظ اسلم مضارع متکلم کے صیغہ کے ساتھ منقول ہے اور بعض روایتوں میں صیغہ ماضی کے ساتھ بھی نقل ہوا ہے اور یہ دونوں صحیح ہیں چنانچہ مضارع متکلم کا ترجمہ تو وہی ہے جو یہاں نقل کیا گیا اور اگر اسے صیغہ ماضی کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے مقابلہ پر میری اعانت فرمائی ہے چونکہ وہ شیطان میرے حق میں مسلمان یعنی مطیع و مغلوب ہو گیا ہے۔