غلام، اپنی مالکہ کے حق میں اجنبی مرد کی طرح ہے
راوی:
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم أتى فاطمة بعبد قد وهبه لها وعلى فاطمة ثوب إذا قنعت به رأسها لم يبلغ رجليها وإذا غطت به رجليها لم يبلغ رأسها فلما رأى رسول الله صلى الله عليه و سلم ما تلقى قال : " إنه ليس عليك بأس إنما هو أبوك وغلامك " . رواه أبو داود
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے اس وقت حضرت فاطمہ کی خدمت میں وہ غلام بھی موجود تھا جو ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا اور حضرت فاطمہ کے جسم پر ایک ایسا چھوٹا کپڑا تھا کہ جب وہ اس سے اپنے سر کو چھپاتیں تو پاؤں کھل جاتے اور جب اس سے اپنے پاؤں کو چھپاتیں تو ان کا سر کھلا رہ جاتا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو اس پریشانی میں دیکھا کہ وہ شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے پورے جسم کو چھپانے کی غیرمعمولی کوشش میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تو فرمایا کہ فاطمہ اتنا کیوں پریشان ہوتی ہو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ جس سے تم اتنا شرما رہی ہو وہ کوئی غیر نہیں ہے بلکہ تمہارا باپ ہے یا تمہارا غلام۔ ( ابوداؤد)
تشریح :
اس حدیث سے حضرت امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کا غلام اس کا محرم ہے یعنی پردہ وغیرہ کے بارے میں جو محرم کا حکم ہے وہی اس کے غلام کا ہے جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک غلام اپنی مالکہ کے حق میں اجنبی مرد کی طرح ہوتا ہے لہذا غلام کے لئے اپنی مالکہ کے جسم کے صرف انہی حصوں کی طرف نظر اٹھانا جائز ہے جن حصوں کی طرف ایک اجنبی مرد نظر اٹھا سکتا ہے یعنی چہرہ اور ہاتھ پاؤں ۔ حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے بارے میں حضرت امام شافعی کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ حضرت امام شافعی جو بات کہتے ہیں وہ اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلام جو حضرت فاطمہ کے پاس تھا اس وقت نابالغ ہو۔