مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منسوبہ کو دیکھنے اور جن اعضا کو چھپانا واجب ہے ان کا بیان ۔ حدیث 339

عورتوں میں مخنث کے آنے کی ممانعت

راوی:

عن أم سلمة : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان عندها وفي البيت مخنث فقال : لعبد الله بن أبي أمية أخي أم سلمة : يا عبد الله إن فتح الله لكم غدا الطائف فإني أدلك على ابنة غيلان فإنها تقبل بأربع وتدبر بثمان فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لا يدخلن هؤلاء عليكم "

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے اور گھر میں ایک مخنث بھی موجود تھا وہ مخنث حضرت عبداللہ بن امیہ سے کہ جو حضرت ام سلمہ کے بھائی تھے کہنے لگا کہ عبداللہ اگر اللہ تعالیٰ نے کل آپ لوگوں کو طائف پر فتح بخشی تو میں آپ کو غیلان کی بیٹی دکھلاؤں گا جو چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مخنث کی بات سنی تو فرمایا کہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آیا کریں ( بخاری ومسلم)

تشریح :
لفظ مخنث نون کے زیر کے ساتھ یعنی مخنث بھی لکھا پڑا جاتا ہے اور نون کے زبر کے ساتھ مخنث بھی استعمال ہوتا ہے لیکن زیادہ صحیح زیر کے ساتھ یعنی مخنث ہی ہے جب کہ مشہور زبر کے ساتھ یعنی عام طور پر مخنث لکھا پڑھا جاتا ہے مخنث اس شخص کو کہتے ہیں جو عادات واطوار بول چال اور حرکات وسکنات میں عورتوں کے مشابہ ہو جس کو ہمارے ہاں زنانہ اور زنخا کہتے ہیں۔ یہ مشابہت کبھی تو خلقی طور پر ہوتی ہے اور کبھی مصنوعی طور پر اختیار کی جاتی ہے خلقی طور پر جو مشابہت ہوتی ہے اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ ایک قدرتی چیز ہوتی ہے جس میں انسانی اختیار کو دخل نہیں ہوتا۔ ہاں جو مشابہت مصنوعی ہوتی ہے کہ بعض مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے رہن سہن عادات واطوار اور بول چال میں اپنے آپ کو بالکل عورت ظاہر کرتے ہیں یہ بہت برائی اور گناہ کی بات ہے ایسے لوگ لعنت کے مستحق ہیں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ان عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو جو مردوں کے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
یہاں حدیث میں جس مخنث کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام ہئیت تھا بعض نے اس کا نام ماطع لکھا ہے اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں میں آیا جایا کرتا تھا کیونکہ ازواج مطہرات کا یہ گمان تھا کہ یہ خلقی طور پر اوصاف مردانگی سے عاری اور جذبات نفسانی سے خالی ہے اسے عورتوں کی طرف نہ کوئی رغبت وحاجت ہے اور نہ جنسیات سے اسے کوئی دلچسپی ہے بلکہ یہ آیت (غیر اولی الاربۃ) میں سے ہے جن کا ذکر قرآن مجید نے کیا ہے اور کہا ہے کہ ان سے پردہ کرنا عورتوں کے لئے واجب نہیں ہے مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سنی جو جنسی معاملات میں اس کی دلچسپی کی مظہر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ ہو گیا کہ مخنث آیت (غیر اولی الاربۃ) میں سے نہیں ہے بلکہ اولی الاربۃ میں سے ہیں اور جنسیات کی طرف خواہش ورغبت رکھتے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا منع کر دیا کہ اب مخنث گھروں میں داخل نہ ہوا کریں اور عورتوں کے پاس آیا جایا نہ کریں ۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ مخنث کے لئے گھروں میں داخل ہونے اور عورتوں کے پاس آنے جانے کی ممانعت ہے بلکہ خصی اور مجبوب کا بھی یہی حکم ہے اور پردہ وغیرہ کے سلسلہ میں تینوں ان مردوں کی مانند ہیں جن سے پردہ کرنا عورتوں پر واجب ہے۔
جو چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ جاتی ہے اس بات سے اس مخنث کا مقصد غیلان کی بیٹی تھی کہ جس کا نام بادیہ تھا کہ فربہی و تنومدی کو بیان کرنا تھا کیونکہ عام طور پر جس شخص کا جسم فربہ ہوتا ہے اس کے پیٹ پر چار شکن پڑے ہوتے ہیں جو سامنے سے چار ہی نظر آتے ہیں مگر پیچھے سے دیکھنے پر وہ آٹھ نظر آتے ہیں بایں طور کہ ان چاروں شکنوں کے سرے دونووں پہلوں کی طرف نمایاں ہوتے ہیں لہذا مخنث نے جو یہ بات کہی تو اس کی مراد یہی تھی کہ غیلان کی بیٹی جب آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن نظر آتے ہیں اور جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو پیچھے آٹھ شکن معلوم ہوتے ہیں جو دراصل پیٹ کے ان چاروں شکنوں کے وہ دونوں طرف کے سرے ہوتے ہیں جو دونوں پہلوں کی طرف نمایاں ہوتے ہیں حاصل یہ ہے کہ عرب کے لوگ چونکہ فربہ جسم والی عورتوں کی طرف زیادہ میلان رکھتے تھے اس لئے اس مخنث نے غیلان کی بیٹی کی فربہی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ طرز تعبیرا اختیار کیا۔

یہ حدیث شیئر کریں