شادی گانے کی اجازت
راوی:
وعن عائشة قالت : كانت عندي جارية من الأنصار زوجتها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا عائشة ألا تغنين ؟ فإن هذا الحي من الأنصار يحبون الغناء " . رواه ابن حبان في صحيحه
(2/215)
3155 – [ 16 ] ( لم تتم دراسته )
وعن ابن عباس قال : أنكحت عائشة ذات قرابة لها من الأنصار فجاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أهديتم الفتاة ؟ " قالوا : نعم قال : " أرسلتم معها من تغني ؟ " قالت : لا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الأنصار قوم فيهم غزل فلو بعثتم معها من يقول :
أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم " . رواه ابن ماجه
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی جب میں نے اس کا نکاح کسی سے کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ! کیا تم گانے کے لئے کسی سے نہیں کہہ رہی ہو؟ کیونکہ یہ انصار کی قوم گانے کو بہت پسند کرتی ہے؟ (اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے)
تشریح :
یہ لڑکی جو حضرت عائشہ کے پاس رہا کرتی تھی اور جس کا نکاح انہوں نے کیا تھا تو ان کے قرابت داروں میں سے کسی کی تھی جیسا کہ آگے آنیوالی حدیث وضاحت کر رہی ہے یا پھر کوئی یتیمہ رہی ہو گی جسے انہوں نے اپنے یہاں رکھ کر پالا پوسا تھا۔
مشکوۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد کوئی عبارت نہیں لکھی ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوۃ کو اس روایت کے اصل مآخذ کا علم نہیں ہو سکا تھا پھر بعد میں دوسرے علماء نے حاشیہ پر یہ عبارت ابن حبان فی صحیحہ (یعنی اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ( لکھ دی ہے)
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ نے ایک لڑکی کا نکاح کیا جو انصاری تھی اور ان کے قرابتداروں میں سے تھی چنانچہ جب نکاح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا تم نے اس لڑکی کو کہ جس کا نکاح کیا گیا ہے۔ اس کے خاوند کے گھر بھیج دیا ؟ گھر والوں نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کسی گانے والے کو بھی بھیجا ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار ایک ایسی قوم ہے جس میں گانے کا شوق ہے کاش! تم اس کے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیج دیتیں جو یہ گاتا ہوا جاتا (اتیناکم اتیناکم فحیانا وحیاکم) (یعنی ہم تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمہیں بھی سلامتی کے ساتھ رکھے ( ابن ماجہ)
تشریح :
شادی بیاہ کے موقع پر طربیہ اشعار کے ذریعہ خوشی ومسرت کا اظہار ایک قدیم روایت ہے چنانچہ انصار میں بھی یہ روایت جاری تھی اور وہ اسے پسند بہت کرتے تھے اسی وجہ سے جب حضرت عائشہ نے اس انصار کی لڑکی کا نکاح کیا اور اس کے ساتھ کسی گانیوالے کو نہیں بھیجا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر اس لڑ کی کے ساتھ کوئی گانیوالا بھی جاتا تو اس موقع پر اس کے طربیہ اشعار لڑکی کے سسرال والوں کے جذبات مسرت وخوشی میں یقینا اضافہ کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طربیہ گیت کا ایک مصرعہ بھی پڑھ کر سنایا جو عرب میں شادی بیاہ کے موقع پر گایا جاتا تھا، چنانچہ وہ پورا شعر یوں ہے۔
(اتیناکم اتیناکم فحیانا وحیاکم ولا الحنطۃ السمراء لم تسمن عذاراکم)
ہم تمہارے پاس آئے خداوند تعالیٰ تمہیں بھی اور ہمیں بھی سلامتی کے ساتھ رکھے۔ اگر سرخ گیہوں نہ ہوتے تو تہاری کنواریاں گداز بدن والی نہ ہوتیں۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ دوسرا مصرعہ ولا الحنطۃ کے بجائے یہ ہے
(ولولا العجوۃ السوداء ماکنا بواواکم)
اگر سیاہ کھجوریں نہ ہوتیں تو ہم تمہارے مکانوں میں نہ رہتے (بلکہ بھوک کے مارے کہیں نکل جاتے)