ثبوت رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہے یا نہیں؟
راوی:
وعن عقبة بن الحارث : أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتت امرأة فقالت : قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة : ما أعلم أنك قد أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب فسألهم فقالوا : ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه و سلم بالمدينة فسأله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف وقد قيل ؟ " ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره . رواه البخاري
اور حضرت عقبہ بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آ کر کہا کہ میں نے عقبہ کو اور ابواہاب کی بیٹی کو جس سے عقبہ نے شادی کی ہے دودھ پلایا ہے (لہا عقبہ اور ابواہاب کی بیٹی چونکہ دودھ شریک بھائی بہن ہوئے اس لئے ان کا نکاح باطل ہوا ) عقبہ نے اس عورت سے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے مجھے اس سے پہلے اس بارے میں بتایا پھر عقبہ نے ایک آدمی کو ابواہاب کے خاندان والوں کے پاس یہ دریافت کرنے کے لئے بھیجا کہ کیا اس عورت نے تمہاری بیٹی کو دودھ پلایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہو ۔ اس کے بعد عقبہ سوار ہو کر مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نکاح کے بارے میں پوچھا کہ یہ صورت پیدا ہو گئی ہے آیا میرا نکاح باطل ہو گیا ہے یا باقی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس لڑکی کو کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جب کہ یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ تمہاری دودھ شریک بہن ہے چنانچہ عقبہ نے اس لڑکی کو علیحدہ کر دیا اور اس لڑکی نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ (بخاری)
تشریح :
حضرت امام احمد نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ ثبوت رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی قبول ہوتی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور اکثر علماء کے نزدیک چونکہ دودھ پلانے کا ثبوت دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت جو عادل ہوں کی ۔ گواہی سے ہوتا ہے اس لئے یہ حضرات اس حدیث کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق محض تقوی اور احتیاط سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطًا یہ مناسب نہیں سمجھا کہ عقبہ اس لڑکی کو اپنے نکاح میں رکھے۔