مدت رضاعت گزرنے کے بعد دودھ پینا حرمت کوثابت نہیں کرتا
راوی:
وعن أم سلمة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يحرم من الرضاع إلا ما فتق الأمعاء في الثدي وكان قبل الفطام " . رواه الترمذي
اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دودھ پینا حرمت رضاعت کو ثابت کرتا ہے جو چھاتی سے پینے کی وجہ سے انتڑیوں کو کھول دیتا ہے اور وہ دودھ دودھ چھڑانے کے وقت سے پہلے پیا گیا ہو ( ترمذی)
تشریح :
انتڑیوں کو کھول دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دودھ بچہ کے پیٹ کو اس طرح سیر کر دے جس طرح کسی بھوکے کے پیٹ کو غذا سیر کر دیتی ہے اور وہ دودھ بچہ کی انتٹریوں میں غذا کی جگہ حاصل کر لے چنانچہ یہ بات شیرخوارگی کی مدت میں ہوتی ہے اور شیرخوارگی کی مدت دو سال یا ڈھائی سال کی عمر تک رہتی ہے اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ بڑی عمر میں یعنی دو سال میں یا ڈھائی سال کی عمر کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ چھوٹی عمر یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر تک کے عرصہ میں دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
چھاتی سے پینے کی وجہ سے ان الفاظ کا مقصد محض دودھ پلانے کی صورت اور واقع کا بیان کرنا ہے کہ عورت بچہ کو اپنی چھاتی سے دودھ پلاتی ہے ورنہ تو حرمت رضاعت کے ثابت ہونے کے لئے چھاتی سے دودھ پینا شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہو گی جب کہ بچہ نے عورت کی چھاتی ہی سے دودھ پیا ہو بلکہ خواہ عورت اپنی چھاتی سے دودھ پلائے خواہ کسی چیز جیسے چمچہ وغیرہ میں دودھ نکال کر پھر بچہ کو پلائے اور خواہ کسی اور ذریعہ سے اپنا دودھ اس کے پیٹ میں پہنچائے بہرصورت حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
وہ دودھ دودھ چھڑانے کے وقت سے پہلے پیا ہو " یہ جملہ دراصل ما قبل کی عبارت کی تاکید کے طور پر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ شریعت میں بچہ کا دودھ چھڑانے کا جو وقت مقرر ہے یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر اس سے پہلے جو دودھ پیا گیا ہے حرمت رضاعت کے سلسلے میں اسی کا اعتبار ہوگا۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ مدت رضاعت کے سلسلے میں وقت معین سے پہلے دودھ چھڑانے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا چنانچہ اگر کسی بچہ کا دودھ وقت متعین سے پہلے یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر سے پہلے چھڑا دیا گیا اور اس کے بعد اس مدت متعین یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر کے اندر کسی عورت نے اس کو اپنا دودھ پلا دیا تو حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی اس بارے میں ضمنی طور پر یہ مسئلہ جان لینا ضروری ہے کہ کسی بچہ کو وقت متعین یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے کیونکہ دودھ ْ انسان کا ایک جزو ہے اور انسان کے جزو سے بغیر ضرورت فائدہ اٹھانا حرام ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مدت رضاعت کے بعد ضرورت ختم ہو جاتی ہے اسی بناء پر انسان کی دودھ کو بطور دوا استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
بطور نکتہ ایک یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اطباء نے ثابت کیا ہے کہ بیٹی کا دودھ آنکھ کو فائدہ کرتا ہے، علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے چنانچہ بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ طبی طور پر یہ بات صحیح ہو لیکن شرعی طور پر ) یہ جائز نہیں ہے جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ یہ گمنا غالب ہو کہ اپنی بیٹی کا دودھ آنکھ میں ڈالنے سے مرض جاتا رہے گا۔