اگر دو آدمی بیک وقت دعوت کریں تو ان میں سے کس کی دعوت قبول کی جائے
راوی:
وعن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا اجتمع الداعيان فأجب أقربهما بابا وإن سبق أحدهما فأجب الذي سبق " . رواه أحمد وأبو داود
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بیک وقت دو شخص دعوت کریں تو ان میں سے اس شخص کی دعوت قبول کرو جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو اور اگر ان میں سے ایک نے پہلے مدعو کیا اور دوسرے نے اس کے بعد دعوت دی تو اس صورت میں اس شخص کی دعوت قبول کی جائے جس نے پہلے مدعو کیا ( احمد ابوداؤد)
تشریح :
بظاہر یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ ایک ہی وقت ہونے کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے دونوں کی دعوت میں شریک ہونا ممکن نہ ہو ہاں اگر دونوں کی دعوت میں شریک ہونا ممکن ہو تو پھر یہی حکم ہو گا کہ دونوں کی دعوت میں شرکت کی جائے نیز یہ حکم دو ہمسایوں کی دعوت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں پڑوس کے دو آدمی دعوت کریں تو اس پڑوسی کی دعوت کو ترجیح حاصل ہو گی جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو اور اگر ہمسایوں کے علاوہ شہری آبادی کے دوسرے دو آدمی بیک وقت مدعو کریں تو اس صورت میں دوسری وجوہ مثلًا معرفت اصلاح اور حقوق کے پیش نظر ترجیح دی جائے گی ۔ یعنی ان دونوں میں سے اس شخص کی دعوت کو ترجیح حاصل ہوگی جو دوسرے سے زیادہ قریبی جان پہچان کا ہو یا وہ دوسرے سے زیادہ نیک بخت و صالح ہو اور یا حقوق کے اعتبار سے وہ دوسرے سے زیادہ قریب ہو۔ اس حدیث سے ایک نکتہ یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی استاد کے پاس اس کے دو شاگرد بیک وقت سبق پڑھنے آئیں یا کسی عالم کے پاس ایک ہی وقت میں دو آدمی مسئلہ پوچھنے آئیں تو پہلے اس کو سبق پڑھایا جائے یا مسئلہ بتایا جائے جو پہلے آیا ہے ۔