اس باب میں کوئی عنوان نہیں
راوی: عبداللہ یحیی یزید حبیب بن ابوثابت ابووائل
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ قَالَ کُنَّا بِصِفِّينَ فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَکُمْ فَإِنَّا کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَهُمْ عَلَی الْبَاطِلِ فَقَالَ بَلَی فَقَالَ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَی قَالَ فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْکُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی عُمَرَ إِلَی آخِرِهَا فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ قَالَ نَعَمْ
عبداللہ یحیی یزید حبیب بن ابوثابت ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ جنگ صفین میں شریک و موجود تھے کہ سہل بن حنیف نے کھڑے ہو کر کہا لوگو! تم اپنی رائے کا قصور سمجھو ہم لوگ تو جنگ حدیبیہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے اگر جنگ کی ضرورت دیکھتے تو ضرور لڑتے جہاں فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور عالم سے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور یہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ارشاد ہوا ہاں! اس کے بعد انہوں نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مرے ہوئے لوگ دوزخ میں نہیں ہیں ارشاد ہوا کہ ہاں! تو اس کے بعد انہوں نے پھر پوچھا بتائیے تو پھر ہم اپنے مذہب کے بارے میں ان لوگوں سے کمزوریوں کو قبول کیوں کریں اور دین میں ان سے کیوں دبیں اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور ان کا فیصلہ کرے کیا ہم واپس ہو جائیں تو سرور عالم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی رسوا و ذلیل نہیں کرے گا۔ اس کے بعد فاروق اعظم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر وہی سب کچھ کہا جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا تھا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا سرور عالم بیشک اللہ کے رسول ہیں جن کو اللہ کبھی بھی رسوا اور برباد نہیں کرے گا اور جب سورت فتح نازل ہوئی تو یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے رسالت مآب نے پوری کی پوری پڑھی جس کو سن کر فاروق اعظم نے کہا یا رسول اللہ (یہ صلح حدیبیہ) کیا فتح ہے؟ ارشاد عالی ہوا ہاں (صلح حدیبیہ بیشک فتح مندی ہے) ۔
Narrated Abu Wail:
We were in Siffin and Sahl bin Hunaif got up and said, "O people! Blame yourselves! We were with the Prophet on the day of Hudaibiya, and if we had been called to fight, we would have fought. But 'Umar bin Al Khatab came and said, 'O Allah's Apostle! Aren't we in the right and our opponents in the wrongs' Allah's Apostle said, 'Yes.' 'Umar said, 'Aren't our killed persons in Paradise and their's in Hell?' He said, 'Yes.' 'Umar said, 'Then why should we accept hard terms in matters concerning our religion? Shall we return before Allah judges between us and them?' Allah's Apostle said, 'O Ibn Al-Khattab! I am the Apostle of Allah and Allah will never degrade me. Then 'Umar went to Abu Bakr and told him the same as he had told the Prophet.
On that Abu Bakr said (to 'Umar). 'He is the Apostle of Allah and Allah will never degrade him.' Then Surat-al-Fath (i.e. Victory) was revealed and Allah's Apostle recited it to the end in front of 'Umar. On that 'Umar asked, 'O Allah's Apostle! Was it (i.e. the Hudaibiya Treaty) a victory?' Allah's Apostle said, "Yes"