کسی متقی کے ہاں کھانا کھانے جاؤ تو اس کے کھانے کے جائز وناجائز ہونے کی تحقیق نہ کرو
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " إذا دخل أحدكم على أخيه المسلم فليأكل من طعامه ولا يسأل ويشرب من شرابه ولا يسأل "
روى الأحاديث الثلاثة البيهقي في " شعب الإيمان " وقال : هذا إن صح فلأن الظاهر أن المسلم لا يطعمه ولا يسقيه إلا ما هو حلال عنده
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے ہاں جائے تو اس کا کھانا کھا لے اور پانی پی لے اور یہ نہ پوچھے کہ وہ کھانا اور پانی کیسا ہے اور کہاں سے آیا ہے ان تینوں حدیثوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آخری حدیث اگر صحیح ہے تو اس حکم کیوجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو وہی چیز کھلاتا پلاتا ہے جو اس کے نزدیک حلال ہوتی ہے۔
تشریح :
مسلمان سے کامل یعنی متقی و پرہیزگار مسلمان مراد ہے چنانچہ اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے ہاں کھانا کھانے جائے تو اس کے کھانے کے جائز و ناجائز ہونے کی تحقیق نہ کرے بلکہ جو کچھ اس کے سامنے آئے بلاشک و شبہ اسے کھاپی لے کیونکہ اول تو اس کے متقی و پرہیزگار ہونے کیوجہ سے اس کے بارے میں یہی نیک گمان رکھا جائے کہ وہ ناجائز و حرام چیز نہیں کھلائے گا دوسرے یہ کہ اگر اس کے کھانے کے جائز و ناجائز کی تحقیق کی جائے گی تو اسے تکلیف پہنچے گی جو مناسب نہیں ہے ۔ ہاں اگر یہ یقین ہو کہ جو چیز کھلائی پلائی جا رہی ہے اس کا کوئی جزء حرام ذریعہ سے آیا ہوا ہے یا اس کھانے کا اکثر حصہ حرام ہے تو پھر اس کو نہ کھائے پئے ۔