عورت کی کجی کو سخت روی سے دور نہیں کیا جاسکتا
راوی:
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء "
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں جو ٹیڑھی ہے اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اس پسلی میں ہے جو اوپر کی ہے لہٰذا اگر تم پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر پسلی کو اپنے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی اس لئے عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو" (بخاری و مسلم)
تشریح :
اس ارشاد گرامی نے عورتوں کی خلقت و طبیعت کے بارے میں دو بنیادی نکتے بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ عورتوں کی اصل و بنیاد حضرت حوا ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی اوپر کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں جو بہت زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے لہٰذا عورتوں کی اصل خلقت ہی میں ٹیڑھا پن ہے جسے کوئی درست نہیں کر سکتا ۔ دوم یہ کہ جس طرح پسلی کا حال ہے کہ اگر کوئی اسے سیدھا کرنا چاہے تو سیدھی نہیں ہو گی بلکہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ٹھیک اسی طرح عورتوں کا حال ہے کہ ان کی اصل خلقت ہی میں چونکہ اعمال و اخلاق کی کجی ہے اس لئے اگر مرد چاہیں کہ ان کی جی کو درست کر دیں تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ اس کو توڑ ڈالیں گے (توڑنے سے مراد طلاق دینا ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا) ۔ لہٰذا عورتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا کار آمد رہنا اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ان کو ان کے خلقی ٹیڑھے پن پر چھوڑے رکھا جائے پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ عورتوں کی اصلاح و درستگی کا م، عاملہ بہت پیچیدہ اور نازک ہے ان کی غلطیوں اور کو تاہیوں پر سخت روی اور غیظ و غضب کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ان کے ٹیڑھے پن کو درست کرنے کے لئے اگر سختی سے کام لیا جائے گا ۔ اس کا انجام ان کی توڑ پھوڑ یعنی طلاق کی صورت میں ظاہر ہوگا جو ان عورتوں ہی کے لئے تباہی کا باعث نہی ہوگا بلکہ خود اپنی زندگی کے لئے بھی نقصان دہ اور اضطراب انگیز ہو گا ۔ اس لئے اپنی عورتوں کے ساتھ نرم معاملہ رکھو اور ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرو اور یہ طریقہ چھوڑ دو کہ وہ سب باتوں میں تمہاری مرضی اور تمہاری خواہش کے مطابق عمل کریں گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا ٹیڑھا پن اگر روز مرہ کی گھریلو زندگی اور معاشرتی امور سے گزر کر گناہ و معصیت کی حدود میں پہنچ جائے تب بھی اس پر صبر کیا جائے بلکہ ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا اور اس سے چشم پوشی کرنا اس وقت تک مناسب ہو گا ۔ جب تک کوئی گناہ لازم نہ آئے ۔ اگر گناہ لازم آئے تو پھر تغافل اور چشم پوشی بالکل مناسب نہیں ہو گی ۔