کجی ہر عورت کو ورثہ میں ملی ہے
راوی:
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم ولولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر "
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی" (بخاری ومسلم)
تشریح :
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ان کی قوم بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کے لئے جنگل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے من و سلوی ٰ کا خوان نعمت اترا کرتا تھا اور اس کا یہ حکم تھا کہ انہیں جتنی ضرورت ہو اسی کے بقدر اس میں سے لے لیا کریں ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ نہ کریں مگر وہ یہودی کیا جو اپنی کج فطرتی اور اللہ کی نافرمانی سے باز آ جائیں چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے حکم الٰہی کی نافرمانی کی اور اس خوان نعمت سے اپنی ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ کرنے لگے، مگر قدرت کا کرنا ایسا ہوتا کہ جب وہ ذخیرہ کرتے تو وہ گوشت سڑ جاتا تھا ۔ چنانچہ یہ گوشت کا سڑنا ان کے اس فعل بد یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد نہ کرنے اور محض حرص و طمع کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی سزا کے طور پر تھا اس کے بعد نظام قدرت نے ہمیشہ کے لئے گوشت کا سڑنا لازم کر دیا لہٰذا اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل اس بری عادت میں مبتلا نہ ہوتے اور ان کو یہ سزا نہ ملتی تو گوشت سڑا نہ کرتا بلکہ جب تک لوگ چاہتے اسے اپنی ضرورت کے مطابق رکھا کرتے ۔
یہاں " خیانت" کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو امانت و دیانت کی ضد ہے بلکہ " خیانت' 'سے ناراستی یعنی کجی مراد ہے لہٰذا حضرت حوا کی کجی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کا وہ درخت کھانے کی ترغیب دی جس سے اللہ تعالیٰ نے روک رکھا تھا ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کجی حضرت حوا سے سرزد ہو گئی تھی وہ ہر ایک عورت کی سرشت کا جزو بن گئی ہے اگر حضرت حوا سے یہ کجی سرزد نہ ہوتی تو کسی بھی عورت میں کجی کا خمیر نہ ہوتا اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ کجروی کا کوئی بھی برتاؤ نہ کرتی ۔