مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 486

دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمغلوب على عقله " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وعطاء بن عجلان الراوي ضعيف ذاهب الحديث

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر بے عقل اور مغلوب العقل کی طلاق واقع نہیں ہوتی امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عطاء بن عجلان روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے حافظہ میں حدیث محفوظ نہیں رہتی تھی۔

تشریح :
امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک اس حدیث کے مطابق ہے کیونکہ ان کے نزدیک کبھی دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ یہاں حدیث میں معتوہ سے دیوانہ مراد ہے یعنی وہ شخص جو کبھی تو مسلوب العقل رہتا ہو اور کبھی اس کی عقل ٹھکانے رہتی ہو قاموس میں لکھا ہے کہ عتہ جو معتوہ کا مصدر ہے کے معنی ہیں کم عقل ہونا مدہوش ہونا اور صراح میں لکھا ہے کہ معتوہ الٹے ہوئے ڈول اور بے عقل شخص کو بھی کہتے ہیں چنانچہ فقہ کی کتابوں میں اس کے یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اس اعتبار سے حدیث کا یہ جملہ المغلوب علی عقلہ گویا لفظ معتوہ کا عطف تفسیری ہے یعنی اس جملہ میں معتوہ کی وضاحت مقصود ہے اسی لئے بعض روایات میں المغلوب بغیر واؤ کے ہے۔
اس تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ جب معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی تو مجنون مطلق یعنی پاگل شخص کہ جو سرے سے عقل وشعور رکھتا ہی نہیں اس کی طلاق بطریق اولی واقع نہیں ہوگی چنانچہ زین العرب نے کہا ہے کہ یوں تو معتوہ ناقص العقل اور مغلوب العقل کو کہتے ہیں لیکن مجنون سویا ہوا شخص مدہوش اور ایسا مریض کہ جس کی عقل اس کے مرض کی وجہ سے جاتی رہے وہ بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہیں یعنی ان سب کی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لفظ معتوہ کے بارے میں علامہ ابن ہمام نے بعض علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ معتوہ اس شخص کو کہتے ہیں جو ناقص العقل وکم سمجھ اور پریشان کلام ہو یعنی بے عقلی اور ناسمجھی کی باتیں کرتا ہو اور فاسد التدبیر یعنی بے عقلی اور بے سمجھی کے کام کرتا ہو لیکن نہ تو مارتا پھرتا ہو اور نہ گالیاں بکتا پھرتا ہو بخلاف مجنوں کے کہ لوگوں کو مارتا اور گالیاں بکتا پھرتا ہے۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اس حدیث کا راوی اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ یعنی ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

یہ حدیث شیئر کریں