مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 515

غیرت بعض صورتوں میں پسندیدہ اور بعض صورتوں میں ناپسندیدہ ہے

راوی:

وعن جابر بن عتيك أن نبي الله صلى الله عليه و سلم قال : " من الغيرة ما يحب الله ومنها ما يبغض الله فأما التي يحبها الله فالغيرة في الريبة وأما التي يبغضها الله فالغيرة في غير ريبة وإن من الخيلاء ما يبغض الله ومنها ما يحب الله فأما الخيلاء التي يحب الله فاختيال الرجل عند القتال واختياله عند الصدقة وأما التي يبغض الله فاختياله في الفخر " وفي رواية : " في البغي " . رواه أحمد وأبو داود والنسائي

اور حضرت جابر ابن عتیک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے بارے میں) بعض غیرت کو تو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور بعض غیرت کو ناپسند کرتا ہے چنانچہ جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے وہ شک و شبہ کی جگہ پیدا ہونے والی غیرت ہے ( مثلا بیوی یا لونڈی غیر مردوں کے سامنے آتی ہے یا غیر مرد اس کے پاس آتے ہیں اور وہ ان سے ہنسی مزاق کرتی ہے تو اس موقع پر خاوند جو غیرت محسوس کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ غیرت ہے جو کسی شک و شبہ کی وجہ کے بغیر پیدا ہوئی ہو (مثلا کسی قرینہ وسبب کے بغیر خاوند کے دل میں بیوی کے کردار کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو جائے اور پھر اس پر غیرت محسوس کرے) اسی طرح بعض تکبر کو تو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند فرماتا ہے چنانچہ جس تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے وقت آدمی کا تکبر کرنا ہے ( یعنی جہاد میں جب کفار سے مقابلہ ہو تو اپنی قوت و برتری اور کفار کی حقارت و کمتری کے اظہار کے لئے خوب اکڑے اور اپنی بڑائی و شجاعت کو بڑے فخر و غرور کے ساتھ بیان کرے) اور وہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں ہو (یعنی جب صدقہ وخیرات دے تو خوشدلی اور بے پروائی کے ساتھ دے اور زیادہ سے زیادہ دینے کو بھی تھوڑا جانے) اور جس تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کرتا ہے وہ اپنے نسب پر فخر کا تکبر ہے اور ایک روایت میں فی الفخر کی بجائے فی البغی ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم کا تکبر ہے یعنی وہ تکبر جو بلا کسی حق استحقاق کیا جائے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں) (احمد ابوداؤد نسائی)

تشریح :
اپنے نسب پر فخر کا تکبر یہ ہے کہ جو شخص اعلی حسب و نسب اور اچھے خاندان کا ہو وہ یہ کہتا پھرے کہ مجھے نسب میں برتری اور امتیاز حاصل ہے اور میرے باپ دادا اعلی نسل وخاندان کے افراد ہونے کی وجہ سے بزرگ وافضل ہیں یہ ایسا تکبر ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو برتری وفوقیت اور بزرگی وفضیلت اسی شخص کو حاصل ہے جو دین کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہو چنانچہ ارشاد ربانی ہے
ا یت (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگ وبلند مرتبہ وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے
مشکوۃ کے ایک نسخہ میں اس روایت میں فی الفخر کی بجائے فی الفقر ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ نا پسند کرتا ہے وہ فقر کا تکبر ہے مطلب یہ کہ اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص حالت فقر میں اپنی قناعت اور اپنے صبر و توکل پر تکبر کرے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ تکبر اس تکبر سے بد تر ہے جو اپنے غنا اور اپنی ثروت پر کیا جاتا ہے لیکن فقر کا تکبر اس صورت میں برا اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے جب کہ وہ فقراء کے مقابلہ پر کیا جائے ہاں اگر وہ تکبر امراء و اغنیاء کے مقابلہ پر ہو تو اچھا اور پسندیدہ ہے کیونکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ کہا گیا ہے

یہ حدیث شیئر کریں