گراں قیمت اور اپنا پسندیدہ غلام آزاد کرنا زیادہ بہتر ہے
راوی:
وعن أبي ذر قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم : أي العمل أفضل ؟ قال : " إيمان بالله وجهاد في سبيله " قال : قلت : فأي الرقاب أفضل ؟ قال : " أغلاها ثمنا وأنفسها عند أهلها " . قلت : فإن لم أفعل ؟ قال : " تعين صانعا أو تصنع لأخرق " . قلت : فإن لم أفعل ؟ قال : " تدع الناس من الشر فإنها صدقة تصدق بها على نفسك "
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا عمل بہتر ہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا " ابوذر کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا " کونسا بردہ آزاد کرنا بہتر ہے ؟ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو گراں قیمت ہو اور اپنے مالک کو بہت پیارا ہو " میں نے عرض کیا کہ " اگر ایسا نہ کر سکوں ؟ ( یعنی از راہ کسل نہیں بلکہ از راہ عجز و عدم استطاعت ایسا غلام آزاد نہ کر سکوں ؟ ) " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کام کرنے والے کی مدد کرو یا جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو اس کی وہ چیز بنا دو " میں نے عرض کیا " اگر میں یہ ( بھی ) نہ کر سکوں ( تو کیا کروں ؟ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو یاد رکھو یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو ۔ " ( بخاری ومسلم )
تشریح :
ایمان کا بہتر ہونا تو بالکل بدیہی بات ہے کہ خیر و بھلائی کی بنیاد ہی ایمان ہے ، اگر ایمان کی روشنی موجود نہ ہو تو پھر کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہوتا خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو اور کتنا ہی افضل کیوں نہ ہو ! اور جہاد اس اعتبار سے بہتر عمل ہے کہ وہ دین کی تقویت اور مسلمانوں کی برتری و عظمت اور غلبہ کا باعث ہوتا ہے ۔
جہاں تک نماز روزہ کا تعلق ہے وہ تو دوسری حیثیات اور دوسری وجوہ کی بناء پر ( ایک دوسرے ) عمل سے برتر اور بہتر ہیں لہٰذا یہاں جہاد کو نماز و روزہ پر فوقیت دینا مراد نہیں ہے ۔ یا پھر یہ کہ اس موقع پر " جہاد " سے مراد مطلق " مشقت برداشت کرنا " ہے جس کا تعلق جہاد سے بھی ہے اور دوسری طاعات و عبادات سے بھی ، چنانچہ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے بچنے کی نفسانی مشقت اور ریاضت کو " جہاد اکبر " فرمایا گیا ہے اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ سب سے بہتر عمل ، ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے حدیث (قل اٰمنت باللہ ثم استقم) کام کرنے والے کی مدد کرو میں " کام سے " مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کے معاش کا ذریعہ ہو خواہ وہ صنعت و کاریگری ہو یا تجارت ہو ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی پیشہ و کسب میں لگا ہوا ہو اور اس کا وہ پیشہ و کسب اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا نہ کرتا ہو وہ شخص اپنے ضعف و مجبوری کی وجہ سے اس کسب و پیشہ کو پوری طرح انجام نہ دے سکتا ہو تو تم اس شخص کی مدد کرو ! اسی طرح " جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو الخ " کا مطلب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے پیشے کے کام کو نہ کر سکتا ہو تو تم اس کا کام کر دو تاکہ وہ تمہارے سہارے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے ۔
" لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو " کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو برے کام میں مبتلا نہ کرو کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے ایذاء نہ پہنچاؤ اور نہ کسی کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچاؤ کیونکہ لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرنا بھی خیر و بھلائی ہے خصوصًا ایسی صورت میں جب کہ برائی ( یعنی کسی کو ایذاء ونقصان ) پہنچانے پر قدرت بھی حاصل ہو ۔
مراز خیر تو امید نیست شرمرساں
اس موقع پر عبارت کے ظاہری اسلوب کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں فرماتے کہ " یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہو " لیکن چونکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا درحقیقت اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا ہے بایں طور کے اس بھلائی کے مختلف فوائد اسے حاصل ہوتے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ " جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو ۔ "