بردہ کو آزاد کرنے یا بردہ کی آزادی میں مدد کرنے کی فضیلت
راوی:
عن البراء بن عازب قال : جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : علمني عملا يدخلني الجنة قال : " لئن كنت أقصرت الخطبة لقد أعرضت المسألة أعتق النسمة وفك الرقبة " . قال : أو ليسا واحدا ؟ قال : " لا عتق النسمة : أن تفرد بعتقها وفك الرقبة : أن تعين في ثمنها والمنحة : الوكوف والفيء على ذي الرحم الظالم فإن لم تطق ذلك فأطعم الجائع واسق الظمآن وأمر بالمعروف وانه عن المنكر فإن لم تطق فكف لسانك إلا من خير " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
(2/270)
3385 – [ 4 ] ( لم تتم دراسته )
وعن عمرو بن عبسة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " من بنى مسجدا ليذكر الله فيه بني له بيت في الجنة ومن أعتق نفسا مسلمة كانت فديته من جهنم . ومن شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة " . رواه في شرح السنة
(2/270)
الفصل الثالث
(2/270)
3386 – [ 5 ] ( ضعيف )
عن الغريف بن عياش الديلمي قال : أتينا واثلة بن الأسقع فقلنا : حدثنا حديثا ليس فيه زيادة ولا نقصان فغضب وقال : إن أحدكم ليقرأ ومصحفه معلق في بيته فيزيد وينقص فقلنا : إنما أردنا حديثا سمعته من النبي صلى الله عليه و سلم فقال : أتينا رسول الله صلى الله عليه و سلم في صاحب لنا أوجب يعني النار بالقتل فقال : " أعتقوا عنه بعتق الله بكل عضو منه عضو أمنه من النار " . رواه أبو داود والنسائي
حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ " مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جس کے ذریعہ میں ( ابتدائی مرحلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ) جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ تم نے سوال کرنے میں بہت اختصار سے کام لیا ہے لیکن بڑی اہم بات دریافت کی ہے ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ عمل بتایا کہ ) تم جان کو آزاد کرو اور بردہ کو نجات دو " دیہاتی نے عرض کیا کہ " کیا یہ دونوں باتیں ( یعنی جان کو آزاد کرنے اور غلام کو نجات دینا ) ایک ہی نہیں ہیں ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں ! جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم اس کو آزاد کرنے میں تنہا اور مستقل ہو اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم اس کی قیمت کی ادائے گی ) میں اس کی مدد کرو ( نیز جنت میں داخل کرنے والا یہ بھی عمل ہے کہ ) تم کسی محتاج کو ) شیردار منحہ دو اور اس ظالم رشتہ دار پر مہربانی اور احسان کرو جو تم پر ظلم کرتا ہے ! اگر تم سے یہ نہ ہو سکے تو بھوکے کو کچھ کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ ۔ نیز ( لوگوں کو ) بھلائی کی تلقین و تبلیغ کرو اور برائی سے روکو ۔ اور اگر تم یہ ( بھی ) نہ کر سکو تو پھر ( کم سے کم اتنا ہی کرو کہ ) بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو ۔ " ( بیہقی )
تشریح :
جان یعنی بردہ کو آزاد کرنا ، اور بردہ کو نجات دینا ، ان دونوں باتوں میں جو فرق واضح کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم خود اپنے بردہ کو آزاد کرو ، اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرو ، بایں طور کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں اس بردہ کی مدد کرو ! مثال کے طور پر زید نے اپنے غلام کو لکھ کر دے دیا کہ جب تم مجھے اتنے روپے ادا کر دو گے تو تم آزاد ہو جاؤ گے ، اب اس غلام کی روپے پیسے سے امداد کرنا تا کہ وہ متعینہ رقم اپنے مالک زید کو ادا کر کے آزاد ہو جائے ، دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرنا ہے ، یاد رہے کہ ایسے غلام کو" مکاتب " کہا جاتا ہے ۔
" منحہ " سے مراد وہ بکری یا اونٹنی ہے جو کسی محتاج کو اس مقصد سے عارضی طور پر دے دی جائے کہ وہ اس بکری یا او نٹنی کے دودھ یا ان کے بالوں سے نفع حاصل کرے اور " وکوف " بہت دودھ دینے والے جانور کو کہتے ہیں ۔
" بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو " اس مضمون کو ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے ۔
(من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیقل خیرا او لیصمت )
" جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے بھلائی ( کی بات ) نکالے یا خاموشی اختیار کرے ۔ "
ان دونوں فرمودات کا حاصل یہ ہے کہ اپنی زبان پر پوری طرح قابو رکھنا چاہئے ۔ یا وہ گوئی ، اور بدکلامی اور بری باتوں کا زبان سے صدور نہ ہونا چاہئے ، زبان جب بھی حرکت میں آئے ، اس سے بھلائی ہی کی بات نکلنی چاہئے ۔ کیونکہ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر عمل کر کے بہت سی خرابیوں اور دینی ودنیاوی نقصانات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔
علماء لکھتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں " بھلائی" سے مراد وہ چیز ہے جس میں ثواب ہو اس صورت میں وہ کلام جس پر مباح کا اطلاق ہوتا ہو ، بھلائی کے زمرہ میں نہیں آئے گا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ " بھلائی ' ' سے مراد وہ چیز ہے جو برائی کے مقابل ہو لہٰذا اس صورت میں مباح کلام بھلائی کے زمرہ میں آئے گا ورنہ حصر غیرموزوں رہے گا ۔
اور حضرت عمرو ابن عبسہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص کوئی ( چھوٹی یا بڑی ) مسجد ( نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ اس نیت سے) بنائے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے لئے جنت میں ایک بڑا مکان بنایا جائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بردہ کو آزاد کرے گا تو وہ بردہ اس شخص کے لئے دوزخ کی آگ سے نجات کا سبب ہوگا اور جو شخص اللہ کی راہ میں ( یعنی جہاد میں یا حج میں ، یا طلب علم میں اور یا اسلام میں جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے ) بوڑھا ہوا تو اس کا بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگا ( جس کے سبب وہ اس دن کی تاریکیوں سے نجات پائے گا ) اس روایت کو صاحب مصابیح نے ( اپنی اسناد کے ساتھ ) شرح السنتہ میں نقل کیا ہے ۔ "
تشریح :
ان الفاظ " رواہ فی شرح السنتہ " میں اس طرف اشارہ ہے کہ مشکوٰۃ کے مصنف کو یہ حدیث شرح السنتہ کے علاوہ حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملی ہے ۔
اور حضرت غریف ابن دیلمی ( تابعی ) کہتے ہیں کہ ہم حضرت واثلہ ابن اسقع ( صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جس میں کمی بیشی نہ ہو ۔ " حضرت واثلہ ( یہ بات سن کر ) غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگ ( شب و روز ) قرآن کریم پڑھتے ہو اور تمہارا قرآن کریم تمہارے گھر میں لٹکا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود ( ازراہ سہو و خطا) کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے ( یعنی جب کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا قرآن کریم اس کے گھر میں یا اس کے پاس موجود ہوتا ہے اور اس صورت میں اگر اسے کہیں کوئی شبہ ہو تو وہ قرآن دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تلاوت میں غلطی سے کوئی لفظ چھوڑ دیتا ہے یا کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے ، لہٰذا معلوم ہوا کہ ضبط و تکرار اور پوری احتیاط کے باوجود نقل روایت میں الفاظ کی کمی بیشی کا ہو جانا ضروری ہے ) ہم نے عرض کیا کہ " ہمارا مطلب تو صرف یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی ہو ہمیں سنائیے ، چنانچہ حضرت واثلہ نے یہ حدیث بیان کی کہ ( ایک دن ) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک دوست کا معاملہ لے کر آئے جس نے ( خود کشی کر کے یا کسی دوسرے کو ناحق ) قتل کر کے اپنے لئے دوزخ کی آگ کو واجب کر لیا تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( واقعہ سن کر ) فرمایا کہ ' ' اس شخص کی طرف سے ( غلام آزاد کر دو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے قاتل کے ہر عضو کے ( دوزخ ) کی آگ سے نجات دے گا ۔ " ( ابوداؤد )
تشریح :
حضرت واثلہ سمجھے کہ غریف کی مراد یہ ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بعینہ روایت کیئے جائیں ۔ چنانچہ ان کو اس بات پر غصہ آیا اور مذکورہ بالا جواب دیا ۔ لیکن حضرت غریف نے اپنی بات کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں بلکہ ہماری مراد تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس طرح بیان فرمائیں کہ اس کے مضمون و مفہموم میں کوئی تغیر نہ ہو اگرچہ الفاظ میں کمی بیشی ہو جائے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کو اس طرح بیان کرنا کہ اس کا مضمون و مفہوم بعینہ نقل ہو جائے گو الفاظ میں کچھ تضاد ہو تو جائز ہے ۔