مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 578

مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟

راوی:

وعن جابر : أن رجلا من الأنصار دبر مملوكا ولم يكن له مال غيره فبلغ النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " من يشتريه مني ؟ " فاشتراه نعيم بن النحام بثمانمائة درهم . متفق عليه . وفي رواية لمسلم : فاشتراه نعيم بن عبد الله العدوي بثمانمائة درهم فجاء بها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فدفعها إليه ثم قال : " ابدأ بنفسك فتصدق عليها فإن فضل شيء فلأهلك فإن فضل عن أهلك شيء فلذي قرابتك فإن فضل عن ذي قرابتك شيء فهكذا وهكذا " يقول : فبين يديك وعن يمينك وعن شمالك

اور جابر کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور اس کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ چنانچہ ایک شخص نعیم ابن نحام نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا ۔ ( بخاری ومسلم ) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ " چنانچہ نعیم ابن عبداللہ عدوی نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا ۔ انہوں نے آٹھ سو درہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درہم اس شخص کو دے دیئے ( جس کا وہ غلام تھا ) اور فرمایا کہ تم اس رقم کو سب سے پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو اور اس کے ذریعہ ثواب حاصل کرو اور اس کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو اس کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ، اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی بچ جائے تو رشتہ داروں پر خرچ کرو اور اگر ان پر خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو اس کو اس طرح اور اس طرح خرچ کرو ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنے آگے اپنے دائیں اور اپنے بائیں خرچ کرو ( یعنی تمہارے لئے آگے اور دائیں بائیں جو سائل جمع ہوں ان کو اللہ واسطے دے دو ) ۔ "

تشریح :
" مدبر " کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے غلام سے یہ کہہ دے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو ، چنانچہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ایسے غلام کو بیچنا حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک جائز ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ مدبر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو مدبر مطلق اور دوسرا مدبر مقید ۔ مدبر مطلق تو وہ غلام ہے جس کا مالک اسے یوں کہے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو ۔ اور مدبر مقید وہ غلام ہے جس سے اس کا مالک یوں کہے کہ اگر میں اس بیماری میں مر جاؤں تو تم آزاد ہو ۔ " مدبر مطلق کا حکم تو یہ ہے کہ ایسے غلام کو آزادی کے علاوہ کسی اور صورت میں اپنی ملکیت سے نکالنا مالک کے لئے جائز نہیں ہے یعنی وہ مالک اس غلام کو آزاد تو کر سکتا ہے لیکن نہ تو اس کو فروخت کر سکتا ہے اور نہ ہبہ کر سکتا ہے ، ہاں اس سے خدمت لینا جائز ہے ، اسی طرح اگر لونڈی ہو تو اس سے جماع کرنا بھی جائز ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرنا بھی جائز ہے ایسا غلام اپنے مالک کے مرنے کے بعد اس کے تہائی مال میں سے آزاد ہو جاتا ہے اور اگر تہائی مال میں سے پورا آزاد نہ ہو سکا ہو تو پھر تہائی مال کے بقدر ( جزوی طور پر ہی آزاد ہوگا ) مدبر مطلق کے برخلاف مدبر مقید کو بیچنا جائز ہے اور اگر وہ شرط پوری ہو جائے یعنی مالک اس مرض میں مر جائے تو پھر جس طرح مدبر مطلق اپنے مالک کے مر جانے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے اسی طرح مدبر مقید بھی آزاد ہو جائے گا ! لہٰذا امام ابوحنیفہ اس حدیث کے مفہوم میں تاویل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مدبر کو فروخت فرمایا وہ مدبر مقید ہوگا ۔
مشکوٰۃ کے تمام نسخوں میں نعیم ابن نحام لکھا ہے لیکن علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے اصل میں نعیم ہی کا دوسرا نام نحام ہے ، اس دوسرے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں نعیم کی نحمہ ( یعنی آواز سنی ) " اس مناسبت سے انہیں نحام کہا جانے لگا ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں