ذی رحم محرم ملکیت میں آتے ہی آزاد ہو جاتا ہے
راوی:
عن الحسن عن سمرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من ملك ذا رحم محرم فهو حر " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
حضرت حسن بصری حضرت سمرہ سے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص خواہ خریدنے کی وجہ سے خواہ ہبہ یا وراثت کے ذریعہ ) اپنے ذی رحم محرم کا مالک ہوگا تو وہ آزاد ہو جائے گا ۔ " ( ترمذی ، ابن ماجہ )
تشریح :
مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا ۔
" ذی رحم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا ، باپ ، بھائی چچا ، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں " اور محرم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ چچا کا بیٹا اور اسی قسم کے دوسرے رشتہ دار ذی رحم محرم کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں ۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قرابت دار محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ اہل ظواہر کا قول یہ ہے کہ ان قرابت داروں میں سے کوئی بھی محض ملکیت میں آجا نے سے آزاد نہیں ہو جاتا بلکہ آزاد کرنا ضروری ہوتا ہے ، ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جو پہلی فصل میں گذری ہے ۔
جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے اصول کے درجہ کے قرابت دار ( جیسے باپ داد ا، پڑ دادا وغیرہ ) اور فروع کے درجہ کے قرابت دار ، ( جیسے بیٹا ، پوتا پڑپوتا وغیرہ ) آزاد ہو جاتے ہیں ، البتہ اصول اور فروع کے علاوہ دوسرے قرابت داروں کے بارے میں جمہور علماء کے بھی مختلف اقوال ہیں ، چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک تو یہ ہے کہ یہ خصوصیت صرف اصول و فروع کے قرابت داروں ہی کے حاصل ہے وہ محض ملکیت میں آجانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتے ہیں جب کہ حضرت امام مالک نے اس خصوصیت میں بھائی کو بھی شامل کیا ہے ، ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ تمام ذی رحم محرم آزاد ہو جا تے ہیں ۔
نیز ان کی تیسری روایت امام شافعی کے مسلک کے مطابق ہے ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر وہ قرابت دار جو ذی رحم محرم ہو محض ملکیت میں آ جانے کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے ۔