مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 594

کسی تنازعہ کی صورت میں قسم دینے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا

راوی:

3415 – [ 10 ] ( صحيح )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يمينك على ما يصدقك عليه صاحبك " . رواه مسلم
(2/277)

3416 – [ 11 ] ( صحيح )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اليمين على نية المستحلف " . رواه مسلم

" اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہاری قسم اس وقت صحیح ہوتی ہے جب تمہارا ساتھی ( یعنی قسم دینے والا ) تمہیں سچا سمجھے ۔ " ( مسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ قسم سچی ثابت ہونے کے سلسلے میں اس شخص کی نیت وارادہ کا اعتبار ہوگا جس نے تمہیں قسم دی ہے اس میں قسم کھانے والے کی نہ تو نیت کا اعتبار ہوگا اور نہ اس کے توریہ وتاویل کا اعتبار کیا جائے گا لیکن اس حکم کا تعلق کسی تنازعہ کی اس صورت سے ہے جب کہ ، قسم دینے والے کا کوئی حق ومطالبہ قسم کھانے والے پر ہو اور قسم کھانے والے کے توریہ وتاویل سے اس کا حق ساقط ہوتا ہو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مقدمہ کے سلسلہ میں اگر قاضی وحاکم مدعا علیہ کو قسم دلائے تو اس میں قاضی وحاکم کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے ، ہاں اگر کسی کی حق تلفی کا کوئی معاملہ نہ ہو یا کوئی قسم دینے والا نہ ہو تو پھر توریہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ بطور خاص جب کہ اس توریہ کی وجہ سے کسی کا فائدہ ہوتا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ یہ میری دینی بہن ہیں ۔

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قسم کا اعتبار ، قسم دینے والے کی نیت پر ہوتا ہے ۔ " ( مسلم )

یہ حدیث شیئر کریں