لغو قسم پر مواخذہ نہیں ہو گا
راوی:
عن عائشة رضي الله عنها قالت : أنزلت هذه الآية : ( لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم )
في قول الرجل : لا والله وبلى والله . رواه البخاري وفي شرح السنة لفظ المصابيح وقال : رفعه بعضهم عن عائشة رضي الله عنه
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ یہ آیت (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْ اَيْمَانِكُمْ) 2۔ البقرۃ : 225) یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرتا ۔ اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جو لا و اللہ اور بلی و اللہ کہتا ہے ۔ ( بخاری ) شرح السنۃ میں یہ روایت بلفظ مصابیح نقل کی گئی ہے ، نیز شرح السنۃ میں کہا گیا ہے کہ بعض راویوں نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مرفوعاً نقل کی ہے ( یعنی ان راویوں کے مطابق یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ) ۔ "
تشریح :
اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ آپس میں گفتگو کرتے وقت بات بات پر یہ کہا کرتے تھے کہ لا و اللہ ( اللہ کی قسم ہم نے یہ کام نہیں کیا ) یا اور بلی و اللہ ( اللہ کی قسم ہم نے یہ کام کیا ہے ) ان الفاظ سے ان کا مقصود قسم کھانا نہیں ہوتا تھا بلکہ اپنی بات پر زور پیدا کرنے کے لئے یا بطور تکیہ کلام وہ ان الفاظ کو بیان کر تے تھے ، چنانچہ اس صورت میں قسم واقع نہیں ہوتی اور اس کو " لغو قسم " کہتے ہیں ۔ حضرت امام شافعی نے اس بات پر عمل کیا ہے ، ان کے نزدیک " لغو قسم " اس قسم کو کہتے ہیں جو بلا قصد زمانہ ماضی یا زمانہ مستقبل ، زبان سے صادر ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک " لغو قسم " اس قسم کو کہتے ہیں جو کسی ایسی بات پر کھائی جائے جس کے بارے میں قسم کھانے والے کا گمان یا تو یہ ہو کہ وہ صحیح ہے لیکن واقعتا وہ صحیح نہ ہو ، چنانچہ اس کی تفصیل ابتداء باب میں گذر چکی ہے ۔