مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 599

قسم کے ساتھ" انشاء اللہ " کہنے کا مسئلہ

راوی:

مرفوع وعن ابن عمر أن رسول الله صلى الله ليه وسلم قال : " من حلف على يمين فقال : إن شاء الله فلا حنث عليه " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وذكر الترمذي جماعة وقفوه على ابن عمر

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو کسی بات پر قسم کھائے اور قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو اس پر حنث ( کا اطلاق ) نہیں ہوگا ۔ ( ترمذی ) ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) نیز امام ترمذی نے کچھ محدثین کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے ( یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت حضرت ابن عمر کا ارشاد ہے ) ۔ "

تشریح :
" حنث کے معنی ہیں " گناہ اور قسم توڑنا چنانچہ قسم توڑنے والے کو " حانث " کہا جاتا ہے ، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس قسم کے الفاظ کے ساتھ لفظ " انشاء اللہ " کہہ دیا جائے وہ قسم منعقد نہیں ہوگی اور جب وہ قسم منعقد ہی نہیں ہوگی تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا ، اسی طرح تمام عقد و معاملات کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر الفاظ عقد کے ساتھ لفظ " انشاء اللہ " متصل ہو تو وہ عقد والا معاملہ منعقد نہیں ہوگا ، چنانچہ اکثر علماء اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت ابن عباس کا قول یہ تھا کہ اگر لفظ " انشاء اللہ " متصل ہو تو بھی یہی حکم ہے ۔
اس بارے میں متصل اور منفصل کی حد یہ ہے کہ قسم کے الفاظ کے بعد کسی اور بات میں مشغول ہوئے بغیر فوراً انشاء اللہ کہا گیا تو یہ " متصل " ہے اور اگر اس قسم کے الفاظ کے بعد کسی دوسری بات میں مشغول ہو تو پھر انشاء اللہ کہا تو " منفصل " ہے ! بعض علماء نے " متصل " کی حد کچھ اور بھی بیان کی ہے جس کی تفصیل مرقات میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں