مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 601

نذر کی ممانعت

راوی:

عن أبي هريرة وابن عمر رضي الله عنهم قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تنذروا فإن النذر لا يغني من القدر شيئا وإنما يستخرج به من البخيل "

حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم نذر نہ مانو کیونکہ نذر تقدیر کی کسی چیز کو دور نہیں کرتی البتہ نذر کے ذریعہ بخیل کا ( کچھ مال ضرور ) خرچ ہوتا ہے ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
حدیث کے آخری الفاظ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں سخی و بخیل کے درمیان ایک بڑا لطیف فرق بتایا گیا ہے کہ سخی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ بلاواسطہ نذر ، ازخود اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے لیکن بخیل کو اس کی توفیق نہیں ہوتی ، اگر اسے کچھ مال خرچ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے نذر کو واسطہ بناتا ہے اور یہ کہتے ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اللہ کے نام پر اتنا مال خرچ کروں گا ، اس طرح سخی تو " ایثار " کا وصف اختیار کرتا ہے اور بخیل ' ' غرض " کی راہ اختیار کرتا ہے ۔
اس حدیث کی بنا پر بعض علماء نے نذر کے ماننے کو بالکل مکروہ قرار دیا ہے ، لیکن قاضی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام طور پر لوگوں کی عادت ہے کہ وہ نذر ( یعنی اللہ کی راہ میں اپنا کچھ مال خرچ کرنے ) کو کسی فائدہ کے حصول اور کسی ضرورت وحاجت کے پوری ہونے پر معلق کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کیونکہ یہ بخیلوں کا کام ہے ، سخی تو جب اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی خو شنودی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس میں عجلت کرتا ہے اور فوراً ہی اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے ، لیکن اس کے برخلاف بخیل کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا دل یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا مال کسی کو دے ہاں اس کی کوئی غرض ہوتی ہے تو وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے چنانچہ یا تو وہ اپنی حاجت پوری ہونے کے بعد اللہ کے نام پر اپنا کچھ مال نکال دیتا ہے یا اللہ کی راہ میں اپنا کچھ مال نکالنے کو حصول نفع یا دفع مضرت پر معلق کر دیتا ہے یعنی یہ نذر مانتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا مجھے فلاں نقصان نہ پہنچا تو میں اپنا اتنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا اور ظاہر ہے کہ اس بات سے تقدیر کا فیصلہ نہیں بدل جاتا لہٰذا اس صورت میں بھی اس کو مال خرچ کرنے کی نوبت نہیں آتی ، ہاں کبھی اس کی نذر ، تقدیر کے فیصلہ کے موافق ہو جاتی ہے تو گویا وہ نذر اس بخیل کو اپنا وہ مال خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کو وہ خرچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں نذر سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نذر ماننے کے بعد اس کو پورا کرنے میں سستی وکاہلی نہ کی جائے کیونکہ جب کسی نے نذر مانی تو اس نذر کو پورا کرنا اس کے ذمہ واجب ہو گیا لہٰذا اس واجب کی ادائیگی میں تاخیر مناسب نہیں ہے ۔ اور بعض علماء کے نزدیک یہاں نذر کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ اس اعتقاد و خیال کے ساتھ نذر مانی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام کو مقدر نہیں کیا ہے وہ نذر سے ہو جائے گا ۔ لہٰذا نذر سے منع کرنا اس اعتبار سے ہے نہ کہ مطلق نذر سے منع کرنا مقصود ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں