نذر کی جن باتوں کو پورا کرنا ممکن نہ ہو ان کو پورا نہ کرنے کی اجازت
راوی:
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال : بينا النبي صلى الله عليه و سلم يخطب إذا هو برجل قائم فسأله عنه فقالوا : أبو إسرائيل نذر أن يقوم ولا يقعد ولا يستظل و لا يتكلم ويصوم فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " مروه فليتكلم وليستظل وليقعد وليتم صومه " . رواه البخاري
(2/281)
3431 – [ 6 ] ( متفق عليه )
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى شيخا يهادى بين ابنيه فقال : " ما بال هذا ؟ " قالوا : نذر أن يمشي إلى بيت الله قال : " إن الله تعالى عن تعذيب هذا نفسه لغني " . وأمره أن يركب
(2/281)
3432 – [ 7 ] ( صحيح )
وفي رواية لمسلم عن أبي هريرة قال : " اركب أيها الشيخ فإن الله غني عنك وعن نذرك "
اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک شخص پر پڑی جو کھڑا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں دریافت فرمایا ( اس کا نام کیا ہے اور یہ اس وقت کیوں کھڑا ہے ؟ ) تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ابواسرائیل ہے اور اس نے یہ نذر مانی ہے کہ کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا ، نہ سائے میں آئے گا اور نہ ( بالکل ) بولے گا اور ( ہمیشہ ) روزے رکھے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ اس سے کہو ، بولے ، سایہ میں آئے ، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے ۔ " ( بخاری )
تشریح :
اس شخص نے جن باتوں کی نذر مانی تھی ان میں سے جس بات پر عمل کرنا اس کے لئے ممکن تھا اس کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا اور جن باتوں پر عمل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ تھا ان کو پورا نہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ وہ روزے کو پورا کرے یعنی اپنی نذر کے مطابق ہمیشہ روزے رکھا کرے ، کیونکہ اطاعات و عبادات کی نذر کو پورا کرنا لازم ہے اور ہمیشہ روزے رکھنا اس شخص کے لئے ایک بہتر عمل ہے جو اس پر قادر ہو ، لیکن واضح رہے کہ اس صورت میں وہ پانچ روزے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو شرعاً وعرفاً ممنوع ہیں اور اگر وہ ان پانچ روزوں کی بھی نیت کرے گا تو ان روزوں کو توڑنا اس پر واجب ہوگا اور حنفیہ کے نزدیک روزہ توڑنے کا کفارہ اس پر واجب ہوگا ۔
جن باتوں پر عمل کرنا ممکن نہ تھا ان میں سے ایک تو " بولنا " تھا جو شرعی طور پر یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص بالکل ہی نہ بولے کیونکہ بعض مواقع پر " بولنا " واجب ہے ،۔ جیسے نماز میں قرأت ، سلام کا جواب دینا اور اس کو ترک کرنا گناہ ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بولنے کا حکم دیا ، اسی طرح بالکل نہ بیٹھنا اور سایہ میں نہ آنا انسان کے بس سے باہر ہے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیٹھنے اور سایہ میں آنے کا حکم دیا ۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بیت اللہ کے سفر کے دوران ) ایک بوڑھے کو دیکھا جو ( ضعف اور کمزوری کی وجہ سے ) اپنے دو بیٹوں کے درمیان ( ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھے ) راستہ چل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ " اسے کیا ہوا ؟ " صحابہ نے عرض کیا کہ اس شخص نے ( بیت اللہ کو ) پیادہ پا جانے کی منت مان رکھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس طرح اپنے آپ کو عذاب ( تکلیف ) میں ڈالنے کی اللہ کو پرواہ نہیں ہے " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سواری پر چلنے کا حکم دیا ۔ ( بخاری ومسلم ) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوڑھے سے فرمایا کہ " بڑے میاں ! سواری پر چلو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے اور ( تمہیں تکلیف میں ڈالنے والی ) تمہاری اس منت سے بے نیاز ہے ۔ ' '
تشریح :
چونکہ وہ شخص اپنے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے پیادہ پا چلنے سے عاجز و معذور تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سواری پر چلنے کا حکم فرمایا ۔
حضرت امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی منت کی صورت میں سواری پر چلنے کی وجہ سے منت ماننے والے پر ( بطور کفارہ ) کوئی چیز واجب نہیں ہوتی لیکن امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس پر جانور ( یعنی بکری یا اس کے مثل ) ذبح کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کر لینے کے بعد اس کو پورا کرنے سے قاصر رہنا ہے ، حضرت امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔
مظہر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ نظر مانے کہ میں پیادہ پا بیت اللہ جاؤں گا تو اس کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ حضرت امام شافعی تو یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ شخص بیت اللہ کا سفر پیادہ پا طے کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ پیادہ پا جائے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو بطور کفارہ جانور ذبح کرے اور سواری پر سفر طے کرے ۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص خواہ پیادہ پا چلنے پر قادر ہو یا نہ قادر ہو ، بہر صورت سواری کے ذریعہ سفر کرے اور جانور ذبح کرے ۔
حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ " میں پیادہ پا بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں " تو اس پر حج یا عمرہ واجب ہوتا ہے ، اب وہ اپنی نیت کے مطابق ان دونوں میں سے جس کو چاہے پورا کرے ۔ ( یعنی اگر اس نے یہ کہتے وقت حج کی نیت کی تھی تو حج کرے اور اگر عمرہ کی نیت کی تھی تو عمرہ کرے ) اور اگر یوں کہے کہ " میں پیادہ پا حرم جانا یا پیادہ پا مسجد حرام جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں ۔ " تو حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا مگر صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک اس پر حج یا عمرہ واجب ہو جاتا ہے ۔ اور اگر یوں کہے کہ " میں بیت اللہ جانا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں " تو اس صورت میں متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا یعنی اس پر حج یا عمرہ واجب نہیں ہوگا ۔
اگر کوئی شخص پیادہ پا حج کو جانے کی نذر مانے تو اس پر واجب ہے۔ کہ وہ گھر سے پیادہ پا روانہ ہو اور جب تک کہ طواف زیارت سے فارغ نہ ہو جائے کوئی سواری استعمال نہ کرے اور اگر پیادہ پا عمرے کو جانے کی نذر مانی ہو تو جب تک کہ سر نہ منڈالے سواری پر نہ چڑھے ۔ اور اگر نذر ماننے والے نے کسی عذر کی وجہ سے یا بلا عذر پورا راستہ یا آدھے سے زیادہ سواری پر طے کیا تو جانور ذبح کرنا اس پر واجب ہوگا اور اگر آدھے راستہ سے کم سواری کا استعمال کیا تو اس کے بقدر ایک بکری کی قیمت میں سے صدقہ کرنا واجب ہوگا ۔