جان قربان کرنے کی نذر کا مسئلہ
راوی:
وعن محمد بن المنتشر قال : إن رجلا نذر أن ينحر نفسه إن نجاه الله من عدوه فسأل ابن عباس فقال له : سل مسروقا فسأله فقال له : لا تنحر نفسك فإنك إن كنت مؤمنا قتلت نفسا مؤمنة وإن كنت كافرا تعجلت إلى النار واشتر كبشا فاذبحه للمساكين فإن إسحاق خير منك وفدي بكبش فأخبر ابن عباس فقال : هكذا كنت أردت أن أفتيك . رواه رزين
اور حضرت محمد ابن منتشر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو دشمن سے نجات دلا دے تو وہ اپنے آپ کو ذبح کر ڈالے گا ، چنانچہ جب اس کو اپنے دشمن سے نجات مل گئی تو ( اس نے اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کیا حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا کہ یہ مسئلہ مسروق ( تابعی ) سے پوچھو ، اس شخص نے مسروق سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ " تم اپنے آپ کو ذبح نہ کرو ، کیونکہ اگر تم مسلمان ہو تو ( اس صورت میں ) تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب ہو گے اور اگر تم کافر ہو تو ( اس صورت میں گویا ) تم دوزخ میں جانے میں جلدی کرو گے ، لہٰذا اگر تمہارے بارے میں یہ حکم ہے کہ ( تم دنبہ خرید کر مسکینوں کے لئے اس کو ذبح کرو ، حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا ، جب اس شخص نے حضرت ابن عباس کو ( حضرت مسروق کے اس فتویٰ سے آگاہ کیا ) تو انہوں نے فرمایا کہ حقیقت یہی ہے ، میں خود تمہیں یہ فتویٰ دینے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ " ( رزین )
تشریح :
حضرت مسروق ابن اجدع کا شمار اونچے درجہ کے تابعین میں ہوتا ہے ۔ ان کی علمی فضیلت اور فقہی حیثیت اپنے زمانہ میں ایک امتیازی شان رکھتی تھی ۔ مرہ ابن شرحبیل کا قول ہے کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا سپوت نہیں جنا ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ مگر دربار رسالت میں حاضری کی سعادت سے محروم رہے تھے ، چنانچہ انہوں نے چاروں خلفاء راشدین اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تحصیل علم کیا تھا اس لئے جب اس شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اپنی جلالت علم کے باوجود اس شخص کو حضرت مسروق سے مسئلہ پوچھنے کے لئے کہا ، اس سے جہاں حضرت مسروق کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے ، وہیں حضرت ابن عباس کے جذبہ احتیاط اور ان کے کمال صبر ودیانت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔
حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے اس کو اپنے دشمن کے ہاتھوں مرنا نہایت شدید اور فضیحت ناک معلوم ہوتا تھا ، چنانچہ اس نے التجا کی کہ " پروردگار ! اصل موت مجھ پر سخت نہیں ہے اور نہ میں اپنے زندگی کے خاتمہ سے گبھراتا ہوں ، میں اپنی جان اپنے ہاتھوں تجھے سونپتا ہوں اور اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کرتا ہوں لیکن دشمن کے ہاتھوں مرنا مجھ پر سخت شاق ہے اس لئے اگر تو مجھے دشمن سے نجات دے گا تو میں اپنے آپ کو تیرے نام پر قربان کر دوں گا " یہ تو گویا اس کا جذبہ اور اس کی ایک طبعی خواہش تھی لیکن اس نے یہ نہیں جانا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر لینا اس سے کہیں زیادہ سخت اور حرام ہے ۔ چنانچہ حضرت مسروق نے اس کے سامنے اس مسئلہ کو بڑے لطیف انداز میں واضح کیا کہ اگر تم مسلمان ہو اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالتے ہو تو اس طرح درحقیقت تم ایک مسلمان کو قتل کرنے کے مرتکب گردانے جاؤ گے اور یہ معلوم ہونا چاہئے کہ نفس مؤمن کو قتل کرنے والے کے بارے میں اس آیت کریمہ ( وَلَا تَقْتُلُوْ ا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا) 4۔ النساء : 29) کے بموجب دوزخ کے دائمی عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے ، اور اگر تم کافر ہو تو اس صورت میں تمہارا اپنے آپ کو قتل کر دینا ، اس بات کے مترادف ہوگا کہ تم دوزخ میں جانے میں جلدی کر رہے ہو ، کیونکہ اگر تم بقید حیات رہتے ہو تو عجب نہیں کہ حق تعالیٰ تمہیں راہ ہدایت سے نوازے اور تم اسلام قبول کر کے دائمی نجات پاؤ ۔ بہر حال کسی بھی صورت میں تمہارا اپنے آپ کی قتل کر دینا نہ صرف یہ کہ نامشروع ہے بلکہ غیر معقول بھی ہے ۔
حدیث کا یہ جملہ " حضرت اسحاق تم سے بہتر تھے جن کا بدلہ ایک دنبہ کو قرار دیا گیا تھا " بعض علماء کے اس قول پر مبنی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں تو وہ بیٹے حضرت اسحاق تھے ۔ لیکن اس بارے میں مشہور و مختار اور صحیح قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خواب میں جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسماعیل تھے ۔ چنانچہ جلال الدین سیوطی نے وضاحت کی ہے کہ اس واقعہ میں اہل کتاب نے سخت تحریف و تکذیب سے کام لیا ہے ، سابقہ آسمانی کتابوں میں اصل نام اسماعیل تھا جس کو اہل کتاب نے حذف کر کے اسحاق بنا دیا ۔
در مختار میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو حضرت ابراہیم کے واقعہ کی موافقت میں اس پر بکری ذبح کرنا واجب ہوگا لیکن حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ ایسی نذر لغو ہوگی ، اسی طرح اپنے آپ کو یا اپنے غلام کو ذبح کرنے کی نذر بھی لغو ہوگی لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک اس صورت میں ایک بکری ذبح کرنا واجب ہوگا ! اور اگر کسی نے اپنے باپ یا اپنے دادا کو اور یا اپنی ماں کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو تمام علماء کے نزدیک اس کی نذر " لغو " ہوگی ۔