مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 629

جو جیسا کرے اس کو ویسی ہی سزا دو

راوی:

وعنه قال : كسرت الربيع وهي عمة أنس بن مالك ثنية جارية من الأنصار فأتوا النبي صلى الله عليه و سلم فأمر بالقصاص فقال أنس بن النضر عم أنس بن مالك لا والله لا تكسر ثنيتها يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا أنس كتاب الله القصاص " فرضي القوم وقبلوا الأرش فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره "

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ربیع نے جو حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں ، ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے اس لڑکی کے رشتہ دار استغاثہ لے کر ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ لینے کا حکم فرمایا (یعنی یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ربیع کے بھی دانت توڑے جائیں ) انس ابن نضر نے جو انس بن مالک کے چچا تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ایسا نہیں ہوگا ، اللہ کی قسم ربیع کے دانت نہیں توڑے جائیں گے آنحضرت نے فرمایا ۔ انس ! اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے " لیکن (خدا نے ایسا کیا ) کہ لڑکی کے خاندان والے (ربیع کے دانت نہ توڑے جانے پر ) راضی ہو گئے اور دیت (مالی معاوضہ ) قبول کر لیا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " بعض بندگان اللہ ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر اللہ کی قسم کھا بیٹھیں تو خداوند تعالیٰ ان کی قسم پوری کرتا ہے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
ربیع ، انس اور مالک یہ تینوں بھائی تھے ان کے والد کا نام نضر تھا ، مالک کے لڑکے کا نام انس تھا گویا چچا اور بھتیجے دونوں ایک نام سے موسوم تھے اس حدیث میں جن ربیع کا ذکر ہے وہ انس یعنی ، حضرت انس ابن مالک کی پھوپھی تھیں اور دوسرے انس یعنی حضرت انس بن نضر کی بہن تھیں ۔
حضرت انس ابن نضر کا یہ کہنا کہ " یا رسول اللہ ! ایسا نہیں ہوگا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت اور آپ کے فیصلہ کو ماننے کا انکار کرنے کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس کی بناحق تعالیٰ کے اس فضل وکرم کی توقع اور امید پر تھی کہ وہ مدعی کو راضی اور ان کے دل میں ڈال دے گا کہ وہ قصاص (یعنی بدلہ لینے ) کو معاف کر دیں ، چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کی امید وتوقع کو پورا کیا اور لڑکی کے خاندان والوں نے دیت قبول کر کے قصاص کو معاف کر دیا ۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس ابن نضر کے بارے میں یہ مدحیہ کلمات ارشاد فرمائے کہ حضرت انس ابن نضر اللہ کے ان بندگان خاص میں سے ہیں جو اگر کسی بات پر قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ ان کو حانث نہیں کرتا بلکہ ان کی اس بات کو پورا کرتا ہے اور قسم کو سچی کرتا ہے ۔
اے انس " اللہ کا حکم بدلہ لینے کا ہے اس ارشاد سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس) تا ۔ (والسن بالنسن) کی طرف اشارہ فرمایا ۔
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ کسی ایسی بات پر قسم کھانا جائز ہے جس کے واقع ہونے کا قسم کھانے والے کو گمان ہو ،
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے منہ پر اس کی تعریف وتوصیف کا اظہار کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے اس شخص کے کسی فتنہ وبرائی میں مبتلا ہو جانے کا خوف نہ ہو اور تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ قصاص کو معاف کر دینا مستحب ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں