قتل ناحق ، ناقابل معافی جرم ہے
راوی:
وعنه عن
رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " كل ذنب عسى الله أن يغفره إلا من مات مشركا أو من يقتل مؤمنا متعمدا " . رواه أبو داود
اور حضرت ابودرداء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہر گناہ کے بارے میں یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا مگر اس شخص کو نہیں بخشے گا ، جو شرک کی حالت میں مر جائے یا جس نے کسی مسلمان کا قتل عمد کیا ہو ۔ (ابو داؤد ) نسائی نے اس روایت کو حضرت معاویہ سے نقل کیا ہے ۔"
تشریح :
بظاہر اس حدیث سے یہ مفہوم ہوتا کہ جس طرح شرک کا گناہ ناقابل معافی ہے اسی طرح قتل عمد کے گناہ بخشش نہیں ہوتی لیکن اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ قتل کا گناہگار مدت دراز تک شدید ترین عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد بخش دیا جائے گا ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے ۔
ا یت (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلً ا بَعِيْدًا ) 4۔ النساء : 116)
" اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو نہیں بخشتا ، شرک کے علاوہ اور گناہوں کو جس کو وہ چاہئے بخش دیتا ہے ۔"
جہاں تک اس حدیث کے ظاہری مفہوم کا سوال ہے تو یہ قتل کی شدید ترین مذمت اور اس کی سخت ترین سزا کے اظہار پر محمول ہے یا اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص قتل مسلم کو حلال جان کر کسی مسلمان کو قتل کرے گا اس کو نہیں بخشا جائے گا علاوہ ازیں لفظ متعمدًا کے (قتل عمد کی بجائے ) یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ جو شخص کسی مؤمن کے قتل کا اس لئے قصد کرے کہ وہ مؤمن ہے تو اس شخص کی بخشش نہ ہو گی ۔