پتھر کے ذریعہ ہونے والے قتل میں دیت واجب ہوگی
راوی:
وعنه قال : اقتتلت امرأتان من هذيل فرمت إحداهما الأخرى بحجر فقتلتها وما في بطنها فقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن دية جنينها غرة : عبد أو وليدة وقضى بدية المرأة على عاقلتها وورثها ولدها ومن معهم
(2/293)
3489 – [ 4 ] ( صحيح )
وعن المغيرة بن شعبة : أن امرأتين كانتا ضرتين فرمت إحداهما الأخرى بحجر أو عمود فسطاط فألقت جنينها فقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم في الجنين غرة : عبدا أو أمة وجعله على عصبة المرأة هذه رواية الترمذي وفي رواية مسلم : قال : ضربت امرأة ضرتها بعمود فسطاط وهي حبلى فقتلتها قال : وإحداهما لحيانية قال : فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم دية المقتول على عصبة القاتلة وغرة لما في بطنها
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) قبیلہ ہزیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا جس سے وہ عورت بھی مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مقتولہ کے اس بچہ کی دیت جو اس کے پیٹ میں مر گیا غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام ہے ، اور حکم فرمایا کہ مقتولہ کے دیت ، قاتلہ کے خاندان وبرادری والوں پر ہے نیز آپ نے اس کی دیت کا وراث اس کے بیٹوں اور ان لوگوں کو بنایا جو بیٹوں کے ساتھ (وراثت میں شریک ) تھے ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ میں جو واقعہ گزرا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے اور اس حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے ۔ پہلی حدیث میں تو یہ ذکر تھا کہ پتھر مارنے سے عورت مر گئی تھی چنانچہ اس حدیث میں اس عورت کی وفات اور اس کی وفات کے بعد جو احکام نافذ ہونے تھے ان کا ذکر کرنا مقصود تھا اور اس حدیث میں اس عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو پتھر کی چوٹ کھانے کی وجہ سے مر گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا تھا چنانچہ یہاں اس کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔
یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ پتھر کے ذریعہ کسی کو ہلاک کر دینا دیت کا موجب ہے نہ کہ قصاص کا ، نیز یہ قتل عمد کی قسم سے نہیں ہے بلکہ شبہ عمد کی قسم سے ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے لیکن اس بارے میں یہ حدیث چونکہ دوسرے ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے وہ حدیث میں مذکورہ پتھر " کو چھوٹے پتھر " پر محمول کرتے ہیں ۔
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں جو آپس میں سوکنیں تھیں (ایک دن باہم لڑ پڑیں ) چنانچہ ان میں سے ایک نے دوسری کو (جو حاملہ تھی ) پتھر یا خیمے کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے اس کا حمل ساقط ہو گیا ۔ لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم دیا اور دیت کو آپ نے مارنے والی عورت پر واجب کیا ۔ یہ ترمذی کی روایت ہے ۔ اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت مغیرہ نے کہا " ایک عورت اپنی سوکن کو جو حاملہ تھی ، خیمہ کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے وہ مر گئی ( اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا ) مغیرہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک عورت لحیان کے خاندان سے تھی (جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے ) مغیرہ کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر واجب کی اور پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم فرمایا ۔"
تشریح :
یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ خیمے چوب سے عام طور انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس عورت کو قتل عمد کا مرتکب قرار دیا گیا بلکہ شبہ عمد کا مرتکب گردانا گیا ۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ یہاں پتھر اور چوب سے مراد چھوٹا پتھر اور چوب ہے جس سے عام طور کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا جاتا ۔