قتل خطاء اور شبہ عمد کی دیت
راوی:
عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " ألا إن دية الخطأ شبه العمد ما كان بالسوط والعصا مائة من الإبل : منها أربعون في بطونها أولادها " . رواه النسائي وابن ماجه والدارمي
(2/294)
3491 – [ 6 ] ( لم تتم دراسته )
ورواه أبو داود عنه وابن ماجه وعن ابن عمر . وفي " شرح السنة " لفظ " المصابيح " عن ابن عمر
حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جاننا چاہئے کہ قتل خطاء جس سے مراد شبہ عمد ہے اور جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو ، اس کی دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس ایسی اونٹنیاں بھی ہونی چاہئیں جن کی پیٹ میں بچے ہوں " (نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ،)
ابو داؤد نے اس روایت کو ابن عمرو اور ابن عمر دونوں سے نقل کیا ہے ، نیز شرح السنۃ میں یہ روایت ابن عمر سے بالفاظ مصابیح نقل کی گئی ہے ۔"
تشریح :
یہ روایت بالفاظ مصابیح یوں ہے (الا ان فی قتل العمد الخطاء بالسوط والعصاء مائۃ من الابل مغلظۃ منہا اربعون خلقۃ فی بطونہا اولادہا) یعنی جاننا چاہئے کہ قتل عمد خطاء جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو اس کی دیت سو اونٹ دیت مغلظہ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی بھی ہونی چاہئیں جن کے پیٹ میں بچے ہوں ، گویا اس روایت میں قتل عمد خطا سے مراد قتل خطا شبہ عمد ہے جو اوپر کی روایت میں مذکور ہوا ۔
اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ ارتکاب میں یا عمد کا دخل ہوتا ہے یا شبہ عمد کا اور یا خطاء محض کا ۔ قتل عمد سے تو یہ مراد ہوتا ہے کہ کسی شخص کی جان بوجھ کر کسی ایسی چیز (مثلا ہتھیار یا دھار دار آلہ ) سے ہلاک کیا جائے جو اعضاء جسم کو جدا کر دے ، یا پھاڑ ڈالے ، اور شبہ عمد کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کو جان بوجھ کر کسی ایسی چیز سے ہلاک کیا جائے جو دھار دار اور ہتھیار کی قسم سے نہ ہو خواہ عام طور پر اس چیز سے انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہو ، یا ہلاک نہ کیا جا سکتا ہو، اور قتل خطاء یہ ہے کہ کسی کو خطاء (یعنی بلا قصد قتل یا نشانہ کی خطاء سے ) ہلاک کر دیا جائے ۔ ان تینوں کا ذکر پچھلے صفحات (گذشتہ قسط ) میں گذر چکا ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے ۔ چنانچہ وہ اس حدیث میں مذکورہ " لاٹھی " کو مطلق معنی پر محمول کرتے ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہو یا بھاری ، جب کہ دوسرے ائمہ چونکہ یہ کہتے ہیں کہ کسی ایسی بھاری چیز سے قتل کرنا جس سے عام طور پر انسان کو قتل کیا جا سکتا ہو قتل عمد کے حکم میں ہے اس لئے وہ " لاٹھی " کو ہلکی لاٹھی پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک یہاں وہ ہلکی لاٹھی (چھڑی ) مراد ہے جس سے عام طور پر انسان کو ہلاک نہ کیا جا سکتا ہو ۔ بعض روایتوں میں " دیت " کے ساتھ مغلظہ کا لفظ بھی منقول ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مصابیح کی روایت میں بھی یہ لفظ موجود ہے ، چنانچہ قتل شبہ عمد میں دیت کی تغلیظ حضرت ابن مسعود ، حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت ابویوسف ، اور حضرت امام احمد ، کے نزدیک تو یہ ہے کہ چار طرح کے سو اونٹ واجب ہوں جن کی ابتداء باب میں گذر چکی ہے اور حضرت امام شافعی اور امام محمد کے نزدیک تغلیظ یہ ہے کہ تین طرح کے سو اونٹ واجب ہوں ان کی تفصیل بھی ابتداء باب میں گزر چکی ہے لیکن قتل خطاء میں بالاتفاق دیت مغلظہ واجب نہیں ہوتی بلکہ اس میں پانچ طرح کے سو اونٹ واجب ہوتے ہیں یعنی بیس ابن مخاض ، بیس بنت مخاض ، بیس بنت لبون بیس حقہ اور بیس جذعہ ۔
دیت مغلظہ کی تفصیل کے سلسلہ میں یہ حدیث حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے مسلک کی دلیل ہے ، لیکن حنیفہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث کے معارض ہے جو حضرت ابن مسعود اور حضرت سائب ابن یزید سے مروی ہے لہٰذا ہم نے متعین پر عمل کیا ہے