ذمی کافر کی دیت مسلمان کی دیت کانصف ہے
راوی:
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : خطب رسول الله صلى الله عليه و سلم عام الفتح ثم قال : " أيها الناس إنه لا حلف في الإسلام وما كان من حلف في الجاهلية فإن الإسلام لا يزيده إلا شدة المؤمنون يد على من سواهم يجير عليهم أدناهم ويرد عليهم أقصاهم يرد سراياهم على قعيدتهم لا يقتل مؤمن بكافر دية الكافر نصف دية المسلم لا جلب ولا جنب ولا تؤخذ صدقاتهم إلا في دورهم " . وفي رواية قال : " دية المعاهد نصف دية الحر " . رواه أبو داود
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب ) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال ایک خطبہ دیا اور اس (میں حمد ثناء) کے بعد فرمایا کہ " لوگو ! اسلام میں قسم اور عہد وپیمان کرنا جائز نہیں ہے لیکن وہ عہد وقسم جس کا رواج زمانہ جاہلیت میں تھا ، اس کو اسلام مضبوطی سے قائم کرتا ہے (یاد رکھو) تمام مسلمان اپنے غیر (یعنی کفار ) کے مقابلے پر (بھلائیوں کو پھیلانے اور آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہونے میں ) ایک ہاتھ کی طرح ہیں ایک ادنی ترین مسلمان بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے ، اور وہ مسلمان بھی حق رکھتا ہے جو سب مسلمانوں سے کہیں دور ہو اور مسلمانوں کا لشکر ان مسلمانوں کو بھی (مال غنیمت کا ) حقدار بناتا ہے جو (لشکر کے ساتھ نہ گئے ہوں بلکہ) بیٹھے رہے ہوں ، (خبردار ) کوئی مسلمان کسی (حربی) کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے (امام شافعی کہتے ہیں کہ ذمی کافر کے بدلے میں بھی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے ) اور (ذمی کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے اور ( زکوۃ وصول کرنے والے کارکن بطور خاص سن لیں کہ ) زکوۃ کے مویشوں کو نہ کھنچوا منگایا جائے اور ( زکوۃ دینے والے بھی سن لیں کہ وہ ) مویشوں کو کہیں دور لے کر نہ چلیں جائیں ، ( زکوۃ وصول کرنے والے کو چاہئے کہ ) زکوۃ ان کے گھروں پر ہی لی جائے ۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ " عہد والے کی دیت ، آزاد کی دیت کا نصف ہے " ۔" (ابو داؤد )
تشریح :
(لاحلف فی الاسلام) اصل میں " حلف " کے معنی ہیں " عقد باندھنا " زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے عہد وپیمان باندھ لیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے لڑائی جھگڑے کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی ، اور اگر کسی معاملہ میں ایک پر کوئی تاوان واجب ہوگا تو دوسرا تاوان کو ادا کرے گا ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی (لاحلف فی الاسلام) کے ذریعہ اس قسم کی عہد وپیمان سے منع کیا کہ یہ ایک خالص غیر منصفانہ اور غیر معقول رواج ہے جس کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن زمانہ جاہلیت ہی میں عہد وپیمان کی ایک یہ بھی صورت ہوتی ہے کہ لوگ آپس میں اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ مظلوم کی مدد کریں گے ، قرابتداروں سے حسن سلوک کریں اور انسانی حقوق کی حفاظت وتائید کریں گے ۔ یہ عہد وپیمان چونکہ سماجی اور معاشرتی نقطہ نظر سے باہمی محبت وموانست اور انسانی بہبود وبھلائی کے لئے ایک بہترین صورت تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ما کان من حلف) الخ کے ذریعہ اس کو اسلام میں بھی جائز رکھا ۔
(یرد سرایاہم علی قعیدہم) یہ دراصل پہلے جملہ (ویرد علیہم واقصاہم) کا بیان اور وضاحت ہے ، اس عبارت کی تشریح کتاب القصاص کی دوسری فصل میں حضرت علی کی روایت کے تحت کی جا چکی ہے اسی طرح (لا یقتل مؤمن بکافر) کی وضاحت بھی اسی حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے ۔
" کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے " یہ حضرت امام مالک کے مسلک کی دلیل ہے ، حضرت امام شافعی اور ایک قول کے مطابق حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت ، مسلمان کی دیت کا ثلث (یعنی تہائی ) ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت ، مسلمان کی طرح پوری دیت ہے ، ملحوظ رہے کہ یہ ساری بحث ذمی و کافر کے بارے میں ہے حربی کافر کی کوئی دیت نہیں ہے ۔ ہدایہ کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ ہر ذمی کی جس سے اسلامی مملکت کا معاہدہ ہو، جب تک کہ وہ معاہدہ باقی رہے اس کی دیت ایک ہزار دینار ہیں ۔" اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، اور حضرت عثمان ، کا عمل بھی اسی حدیث کے مطابق رہا ہے لیکن جب حضرت امیر معاویہ کا زمانہ آیا تو اس کو نصف کر دیا گیا ۔ہدایہ نے حضرت علی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ذمی اسی لئے جزیہ دیتے ہیں کہ ان کا خون ہمارے خون کی طرح اور ان کا مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ومامون ہے " گویا صاحب ہدایہ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اصل یہی ہے کہ ذمی کی دیت بھی مسلمان کی دیت کی طرح پوری ہو ۔ چنانچہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ دوسرے صحابہ سے اس کے خلاف جو کچھ منقول ہے وہ ان مشہور و مستند ترین آثار واقوال کے معارض نہیں ہو سکتا ۔
(لا جلب ولا جنب) کے متعلق کتاب الزکوۃ میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے ، یہاں بھی اجمالی طور پر اتنا سمجھ لیجئے کہ " جلب " کے معنی یہ ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا مویشیوں کی زکوۃ لینے کے لئے جائے تو وہ کسی ایسی جگہ مقام کرے جو مویشیوں کے مالکوں کے مکانات سے دور ہو اور ان کو حکم دے کہ اپنے اپنے جانور لے کر اس کے پاس حاضر ہوں ۔" جنب " کے معنی یہ ہیں کہ مویشیوں کے مالک اپنے اپنے مویشی لے کر زکوۃ وصول کرنے والے کی قیام گاہ سے دور چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ ان کے پاس پہنچ کر زکوۃ کے مویشی حاصل کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا کیونکہ پہلی صورت میں مویشیوں کے مالکوں کو تکلیف ہوگی اور دوسری صورت میں زکوۃ وصول کرنے والا تکلیف ومشقت میں مبتلا ہوگا ۔
(لا یؤخذ صدقاتہم) الخ دراصل پہلے جملہ (لاجلب ولا جنب) کی توضیح وتاکید کے طور پر ہے ۔