دیت کی معافی کا ایک واقعہ
راوی:
وعن عمران بن حصين : أن غلاما لأناس فقراء قطع أذن غلام لأناس أغنياء فأتى أهله النبي صلى الله عليه و سلم فقالوا : إنا أناس فقراء فلم يجعل عليهم شيئا . رواه أبو داود والنسائي
اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ ایک لڑکے نے جو مفلس خاندان سے تعلق رکھتا تھا ، ایک ایسے لڑکے کا کان کاٹ ڈالا جو ایک دولت مند خاندان سے تھا ، چنانچہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا اس کے خاندان والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم محتاج ومفلس ہیں (لہٰذا ہم پر دیت مقرر نہ کی جائے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ) ان پر کوئی چیز مقرر نہیں فرمائی ۔" (ابو داؤد ، نسائی )
تشریح :
اگر کسی لڑکے سے کوئی جنایت (یعنی کسی کو نقصان یا تکلیف پہنچانے کا کوئی قصور ) سرزد ہو جائے تو " اختیار صحیح " کے فقدان کی وجہ سے وہ جنابت خطائی کے حکم میں ہوتی ہے اور اس کا تاوان لڑکے کے عاقلہ (یعنی اس کے خاندان وبرادری والوں پر واجب ہوتا ہے ۔"
اس لئے اگر کوئی لڑکا کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاتا ۔ حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں قاعدہ کے اعتبار سے لڑکے کے عاقلہ پر تاوان واجب ہونا چاہئے تھا لیکن عاقلہ چونکہ غریب ومفلس تھے اور غریب ومفلس کسی تاوان کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کاٹنے والے لڑکے کے خاندان والوں پر کوئی دیت واجب نہیں فرمائی ۔
حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا وہ " آزاد " تھا کیونکہ وہ غلام ہوتا تو اس کی جنایت و دیت خود اس کی ذات کے ساتھ متعلق کی جاتی اور اس کے مالکوں کا فقیر ومفلس ہونا اس کے وجوب کو اس کی ذات سے ختم نہ کرتا ۔