مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جنایات کی جن صورتوں میں تاوان واجب نہیں ہوتا ان کا بیان ۔ حدیث 670

جانور کے مارنے ، کان میں دب جانے اور کنویں میں گر پڑنے کا کوئی تاوان نہیں

راوی:

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " العجماء جرحها جبار والمعدن جبار والبئر جبار "

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (چوپایوں کا زخمی کر دینا معاف ہے ، کان میں دب جانا بھی معاف ہے ، اور کنویں میں گر پڑنا بھی معاف ہے ۔" ( بخاری ومسلم)

تشریح :
اگر کسی کا جانور کسی آدمی کو اپنے پاؤں سے روندے یا کسی کو سینگ یا دم مار کر یا منہ سے کاٹ کر زخمی کر دے اور وہ آدمی مر جائے یا جو جانور کسی چیز کو نقصان وضائع کر دے تو اس کا کوئی تاوان نہیں ہے بشرطیکہ اس جانور کے ساتھ کوئی آدمی نہ ہو ہاں اگر جانور کے ساتھ کوئی ہانکنے والا یا کھینچنے والا یا اس جانور پر کوئی سوار ہو اور اس جانور سے کوئی چیز ضائع ہو گئی ہو تو اس صورت میں اس جانور کے ساتھ جو بھی آدمی ہوگا اس پر تاوان واجب ہوگا یہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے اس بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر جانور نے دن میں کسی چیز کو ضائع کیا ہے تو اس کے مالک پر کوئی تاوان وغیرہ واجب نہیں ہوگا لیکن اگر جانور نے رات میں کسی چیز کو ضائع کیا ہے مثلا کسی کا کھیت چر گیا یا کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو اس صورت میں جانور کے مالک پر تاوان واجب ہوگا کیونکہ رات میں جانورں کی نگہبانی ان کے مالکوں پر لازم ہے اور دن میں اپنے کھیت وباغات اور دوسری چیزوں کی حفاظت کرنا ان کے مالکوں پر لازم ہے
ھدایہ میں لکھا ہے کہ ( جانور سے کسی چیز کا نقصان ہو جانے کی صورت میں ) جانور کو ہانکنے والے پر اسی چیز کا تاوان واجب ہوگا جو جانور کے ہاتھوں اور پیروں کے ذریعہ تلف ہوئی ہے اور جو شخص جانور کو پکڑ کر کھینچتا ہوا لے جا رہا ہو وہ اس چیز کے تاوان کا ذمہ دار ہوگا جو جانور کے پیروں کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف ہاتھوں کے ذریعہ نقصان ہوئی ہے ، اور اگر کسی ایسے جانور نے کسی چیز کو ضائع کیا ہے جس پر کوئی شخص سوار ہو تو اس سوار پر اس چیز کا تاوان واجب ہوگا جو اس جانور کے ہاتھ یا پیر یا سر کے ذریعہ تلف ہوئی ہے ۔ نیز اگر نقصان کرنے والا کوئی سوار ہو جانور ہو جس کے ساتھ اس کو ہانکنے والا بھی ہو اور اس پر کوئی سوار بھی ہو اس کو کھینچنے والا بھی ہو اور اس پر کوئی سوار بھی ہو تو اس نقصان کا تاوان دونوں پر واجب نہیں ہوگا ۔
" کان میں دب جانا معاف ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کھدی ہوئی کان میں جائے یا اس کے اوپر کھڑا ہو اور پھر کان میں بیٹھ جائے جس کی وجہ سے وہ شخص ہلاک ہو جائے تو اس شخص پر کوئی تاوان واجب نہیں ہوگا جس نے کان کھودی ہے یا کسی مزدور کو کان کھودنے کے لئے اجرت پر لگایا اور اتفاق سے وہ مزدور کان میں دب کر مر گیا تو کان کے مالک پر کوئی تاوان واجب نہیں ہوگا یہ دوسری نوعیت صرف کان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ حکم اجارہ (مزدوری ) کی دیگر صورتوں میں بھی نافذ ہوگا جب کہ پہلی نوعیت صرف اس صورت سے متعلق ہے جو حدیث کے آخری جزو (والبئر جبار) (کنوین میں گر پڑنا معاف ہے ) کے مطابق ہو چنانچہ " کنویں میں گر پڑنا معاف ہے " کا مطلب یہ ہے کہ مثلا کسی شخص نے اپنی زمین یا کسی اور مباح زمین میں کنواں کھودا اور پھر اس میں کوئی شخص گر کر مر گیا تو کنواں کھودنے والے پر کوئی تاوان واجب نہیں ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں