مدافعت میں کوئی تاو ان واجب نہیں ہوتا
راوی:
وعن يعلى بن أمية قال : غزوت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم جيش العسرة وكان لي أجير فقاتل إنسانا فعض أحدهما الآخر فانتزع المعضوض يده من في العاض فأندر ثنيته فسقطت فانطلق إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأهدر ثنيته وقال : " أيدع يده في فيك تقضمها كالفحل "
اور حضرت یعلی ابن امیہ کہتے ہیں کہ (غزوہ تبوک کے ) صبر آزما لشکر کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ (جہاد میں ) شریک تھا ، میرے ساتھ ایک نوکر بھی تھا، چنانچہ وہ (کسی بات پر ) ایک شخص سے لڑ پڑا اور ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ کھایا مگر اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے (اس طرح کھینچا کہ اس کے دانت جھڑ کر گر پڑے ۔ وہ شخص کہ جس کے دانت گر پڑے تھے (داد رسی کے لئے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں فیصلہ کریں ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانتوں کا کوئی تاوان واجب نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ وہ شخص اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا تا کہ اس کو اسی طرح چباتے رہتے جس طرح اونٹ چباتا ہے ۔" ( بخاری ومسلم )
تشریح :
کیا وہ شخص اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا الخ " اس ارشاد کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانتوں کا تاوان واجب نہ کرنے کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس شخص کی وجہ سے تمہارے دانت ٹوٹ کر گرے ہیں وہ اس مدافعتی کاروائی پر مجبور تھا کہ اس نے دراصل اپنا ہاتھ بچانے کے لئے تمہارے منہ سے کھینچا ۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسی طرح اگر کوئی مرد کسی عورت سے بدکاری کرنا چاہے اور وہ عورت اپنی آبرو بچانے کے لئے اس پر حملہ کرے جس کے نتیجہ میں وہ مرد ہلاک ہو جائے تو اس کی وجہ سے عورت پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی ۔چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عمر کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ ایک لڑکی (کہیں جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہی تھی کہ ایک شخص نے اس کا پیچھے کیا اور اس سے منہ کالا کرنا چاہا ، لڑکی نے اپنی آبرو خطرہ میں دیکھ کر ایک پتھر اٹھایا اور اس شخص کے کھینچ مارا جس سے وہ مر گیا ، حضرت عمر نے اس کے بارے میں فیصلہ دیا کہ " یہ قتل (حقیقت میں ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے (کہ اس نے اس شخص کو سزا دے کر ایک پاک دامن لڑکی کی عصمت کو محفوظ رکھا ) لہٰذا اللہ کی قسم اس کی دیت نہیں دلوائی جائے گی " حضرت امام شافعی کا قول ہے ۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کا مال لوٹے خون ریزی کرنے اور اس کے گھر والوں کو تباہ برباد کرنے کا ارادہ کرے تو اس قسم کا ارادہ کرنے والے اور قتل کرنے والے کین مدافعت کرنا جائز ہے لہذا پہلے تو یہ چاہیے کہ ایسے شخص کو انسانیت کے ساتھ اس کے ارادہ وفعل سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر وہ اپنے ارادہ قتل و قتال سے باز نہ آئے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اس کو مار ڈالا جائے تو اس کا خون معاف ہوگا ۔