صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 661

طوفان کا بیان طوفان کبھی سیلاب کا ہوت ہے اور لوگوں کے زیادہ مرنے کو بھی طوفان کہتے ہیں القمل کے معنی چیچڑی جو چھوٹی جوں کی طرح ہوتی ہے حقیق کے معنی ہیں لائق اور حق سقط یعنی نادم ہوا جو شخص نادم ہوتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ پر گر پڑتا ہے۔ واقعہ خضر و موسیٰ علیہما السلام۔

راوی: علی بن عبداللہ سفیان عمر وبن دینار سعید بن جبیر

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَی آخَرُ فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مُوسَی قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ بَلَی لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ أَيْ رَبِّ وَکَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِکْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا قَالَ فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِکْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّی إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُئُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَی وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَائِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ فَقَالَ هَکَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَی النَّصَبَ حَتَّی جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ قَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا قَالَ لَهُ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَی فَرَدَّ عَلَيْهِ فَقَالَ وَأَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُکَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ يَا مُوسَی إِنِّي عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُکَ قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَی قَوْلِهِ إِمْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ کَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ جَائَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَی مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَی إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ فَقَالَ لَهُ مُوسَی مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَکَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنْ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَکَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ کَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَکَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ کَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَی فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْکُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً قَالَ قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَی حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَی کَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا قَالَ سُفْيَانُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوْ کَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ فَقَالَ مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ

علی بن عبداللہ سفیان عمر وبن دینار سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتے ہیں کہ خضر (کی ملاقات) والے موسیٰ وہ نہیں ہیں جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے بلکہ وہ دوسرے ہیں۔ ابن عباس نے کہا وہ دشمن اللہ جھوٹ کہتا ہے مجھے ابی بن کعب کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن موسیٰ بنی اسرئیل کے سامنے وعظ کہنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں پس اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ موسیٰ نے اسے اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے بڑا عالم ہے موسیٰ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! مجھے ان تک کون پہنچائے گا اور کبھی سفیان یہ الفاظ روایت کرتے کہ اے پروردگار میں کس طرح ان تک پہنچوں اللہ نے فرمایا تم ایک مچھلی لو اور زنبیل میں رکھ لو جہاں وہ مچھلی غائب ہوئے تو میرا بندہ وہیں ہوگا کبھی سفیان ثم کی جگہ (ثمہ) روایت کرتے پھر وہ اور ان کے خادم یوشع بن نون چلے حتیٰ کہ ایک بڑے پتھر کے پاس پہنچے دونوں نے اس پر اپنا سر رکھا تو موسیٰ کو نیند آ گئی مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا میں گر گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ سرنگ کی طرح بنا لیا یعنی اللہ نے مچھلی جانے کے راستہ سے پانی کے بہاؤ کو روک لیا پس وہ طاق کی طرح ہو گیا اور آپ نے اشارہ سے بتایا کہ طاق کی طرح ہو گیا پھر دونوں باقی رات اور پورا دن آ گے چلے جب دوسرا دن ہوا تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا ذرا ہمارا کھانا تو لاؤ ہم نے اس سفر میں بڑی تکلیف اٹھائی، اور موسیٰ کو سفر میں کلفت اس وقت تک محسوس نہ ہوئی جب تک وہ اللہ کے حکم کردہ راستہ سے آگے نہ بڑھ گئے تو ان کے خادم نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کو بھول گیا اور مجھے تو صرف شیطان ہی نے اس کی یاد سے غافل کیا ہے اور اس نے دریا میں اپنا عجیب طریقہ سے راستہ بنا لیا سو مچھلی کا وہ سرنگ نما راستہ ان کے لئے تعجب کا باعث تھا موسیٰ نے کہا ہم تو یہی چاہتے تھے پھر وہ دونوں اپنے قدم کے نشان دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے یہاں تک کہ دونوں اسی پتھر کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو دیکھا کہ کپڑا اوڑھے ہوئے لیٹا ہے موسیٰ نے اسے سلام کیا، تو انہوں نے جواب دیا اور کہا اس سر زمین میں تو سلام کا رواج نہیں ہے تو انہوں نے کہا میں موسیٰ ہوں اس شخص نے کہا کیا بنی اسرائیل کے موسی؟ موسیٰ نے کہا ہاں! میں آپ کے پاس وہ ہدایت کی باتیں سیکھنے آیا ہوں جو آپ کو بتائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا اے موسیٰ مجھے کچھ من جانب اللہ علم ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہے تم اسے نہیں جانتے اور تمہیں کچھ خداداد علم ہے جو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے میں اسے نہیں جانتا موسیٰ نے کہا کیا میں آپ کے پاس رہ سکتا ہوں؟ خضر نے کہا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکتے اور تم کیونکر ایسی بات پر صبر کر سکتے ہو جس کی حقیقت کا تمہیں علم نہیں ہے موسیٰ نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کی کسی معاملہ میں نافرمانی نہیں کروں گا، پھر یہ دونوں دریا کے کنارے کنارے چلے ایک کشتی ان کی طرف سے گزری انہوں نے کشتی والوں سے کہا ہمیں بٹھا لو کشتی والوں نے خضر کو پہچان لیا، تو بغیر کسی اجرت کے انہیں بٹھا لیا (اتنے میں) ایک چڑیا آ کر کشتی کے ایک طرف بیٹھ گئی اور اس نے دریا میں ایک یا دو چونچیں ماریں خضر نے کہا اے موسیٰ میرے اور تمہارے علم سے اللہ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں ہوئی جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی کم کیا ہے (پھر) یکایک خضر نے ایک کلہاڑی اٹھائی اور کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا پس یکایک موسیٰ نے دیکھا کہ انہوں نے کلہاڑی سے لکڑی کا کشتی کا تختہ نکال ڈالا ہے تو ان سے کہا آپ نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر اجرت کے ہمیں کشتی میں بٹھایا اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ اس کی سواریوں کو غرق کر دیں۔ بے شک آپ نے یہ برا کام کیا ہے خضر نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے موسیٰ نے کہا میں بھول گیا تھا اس پر مواخذہ نہ کیجئے اور میرے کام میں مجھ پر تنگی پیدا نہ کیجئے پس پہلی مرتبہ تو موسیٰ سے بھول ہوئی پھر یہ دونوں دریا سے نکلے تو ایک لڑکے کے پاس سے گزرے جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر نے اس بچہ کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے اسے گردن سے جدا کردیا سفیان نے اپنی انگلیوں سے ایسا اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑتے ہیں موسیٰ نے ان سے کہا آپ نے ایک پاکیزہ اور بے گناہ انسان کو بغیر جرم کے قتل کردیا بیشک آپ نے بہت خراب کام کیا خضر نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے موسیٰ نے کہا کہ اگر اس کے بعد میں آپ سے کچھ پوچھوں تو مجھے جدا کر دیجئے بے شک آپ میری طرف سے معذوری کی حد کو پہنچ گئے پھر وہ دونوں چلے حتیٰ کہ جب وہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے ان سے کھانا مانگا انہوں نے کھانا دینے سے انکار کردیا تو انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی اور جھک گئی تھی اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور سفیان نے اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کسی چیز پر اوپر کی طرف ہاتھ پھیر رہے ہیں اور میں نے سفیان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ جھک گئی تھی صرف ایک مرتبہ سنا ہے موسیٰ نے کہا یہ لوگ ایسے ہیں کہ ہم ان کے پاس آئے۔ تو انہوں نے نہ ہمیں کھانا دیا نہ ضیافت کی اور آپ نے ان کی دیوار کو درست کردیا اگر آپ چاہتے تو ان سے اجرت لے لیتے خضر نے کہا یہی ہمارے تمہارے درمیان جدائی ہے میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہیں کر سکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کاش موسیٰ صبر کرتے اور اللہ ہم سے ان کا (اور زیادہ) قصہ بیان کرتا سفیان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ موسیٰ پر رحم کرے اگر وہ صبر کرتے تو ہم سے ان کا اور قصہ بیان کیا جاتا اور ابن عباس (بجائے مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًاکے) کان مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا پڑھا (یعنی ان کے آگے ایک بادشاه تھا، جو ہر بے عیب کشتی کو زبردستی چھین لیتا ہے اور ابن عباس نے یہ پڑھا) والغلام انعام فکان کافرا کان ابوه مومنین (یعنی وه لڑکا تو کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے) پھر سفیان نے مجھ سے کہا، میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبه سنی، اور انهیں سے یاد کی، سفیان سے پوچھا گیا، کیا آپ نے عمرو سے سننے سے پہلے یہ حدیث یاد کر لی تھی، یا آپ کسی اور سے یہ حدیث یاد کی؟ سفیان نے کہا میں کس سے یاد کرتا، کیا میرے علاوه یہ حدیث عمرو سے کسی اور نے روایت کی ہے میں نے یہ حدیث عمرو سے دو یا تین مرتبه سنی اور انہیں سے یاد کی ۔

Narrated Said bin Jubair:
I said to Ibn Abbas, "Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses." Ibn 'Abbas said, "Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka'b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha 'bin Nun, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys.
Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, "Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing." Al-Khadir said, "Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said "If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, "These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it." Al-Khadir said, "This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient." The Prophet added, "We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case.")

یہ حدیث شیئر کریں