صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 667

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً الْآيَةَ قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ فَاقِعٌ صَافٍ لَا ذَلُولٌ لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ تُثِيرُ الْأَرْضَ لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ مُسَلَّمَةٌ مِنْ الْعُيُوبِ لَا شِيَةَ بَيَاضٌ صَفْرَاءُ إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ وَيُقَالُ صَفْرَاءُ كَقَوْلِهِ جِمَالَاتٌ صُفْرٌ فَادَّارَأْتُمْ اخْتَلَفْتُمْ

آیت کریمہ”اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کا بیان‘ ابو العالیہ نے کہا”العَوان“ یعنی نوجوان اور بڑھیا کے درمیان”فاقع“ بمعنی صاف ”لاذلول“ یعنی کام نے اسے دبلا اور کمزور نہ کیا ہو‘”تثیر الارض“ یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین جوتتی ہو اور نہ زراعت کے کام میں آسکے مسلمہ یعنی عیوب سے پاک ہو‘”لاشیہ“ یعنی سپیدی نہ ہو‘”صفرائ“ یعنی اگر تم چاہو تو سیاہ کے معنی کرلو اور صفراء سیاہ کو بھی کہا جاتا ہے جیسے قول الٰہی جمالات صفر(یعنی سیاہ رنگ کے اونٹ)” فادّراتم“ یعنی تم نے اختلاف کیا۔

یہ حدیث شیئر کریں