مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 722

اگر زنا کا اقراری مجرم اپنے اقرار سے رجوع کرلے تو حد ساقط ہوجائے گی یا نہیں ؟

راوی:

عن أبي هريرة قال : جاء ماعز الأسلمي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إنه قد زنى فأعرض عنه ثم جاء من شقه الآخر فقال : إنه قد زنى فأعرض عنه ثم جاء من شقه الآخر فقال : يا رسول الله إنه قد زنى فأمر به في الرابعة فأخرج إلى الحرة فرجم بالحجارة فلما وجد مس الحجارة فر يشتد حتى مر برجل معه لحي جمل فضربه به وضربه الناس حتى مات . فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه و سلم أنه فرحين وجد مس الحجارة ومس الموت فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هلا تركتموه " . رواه الترمذي وابن ماجه وفي رواية : " هلا تركتموه لعله أن يتوب الله عليه "

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اس نے (یعنی میں نے ) زنا کیا ہے ، یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ اس طرف سے پھیر لیا وہ دوسری جانب سے گھوم کر یعنی تبدیل مجلس کر کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور کہا کہ اس نے زنا کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس کی طرف منہ پھیر لیا اور وہ بھی پھر دوسری جانب سے گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اس نے زنا کیا ہے ! آخر کار چوتھی مرتبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سنگساری کا حکم صادر فرمایا چنانچہ اس کو حرہ میں لایا گیا جو مدینہ کا کالے پتھروں والا مضافاتی علاقہ ہے اور اس کو پتھر مارے جانے لگے جب اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گذرا جس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی اس شخص نے اسی جبڑے کی ہڈی سے اس کو مارا اور دوسرے لوگوں نے بھی دوسری چیزوں سے اس کا مارا تاآنکہ وہ مر گیا ۔ جب صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ وہ پتھروں کو چوٹ کھا کر اور موت کی سختی دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کر کے سنگسار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ ۔" (ترمذی ، ابن ماجہ )

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر سن کر فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا ، بہت ممکن تھا کہ وہ توبہ کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ۔

تشریح :
حدیث (یتوب فیتوب اللہ علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو اپنے اس برے فعل سے رجوع کرتا (یعنی ندامت وشرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہتا اور اللہ تعالیٰ قبولیت توبہ کے ساتھ اس پر رجوع کرتا یعنی بنظر رحمت اس کی طرح متوجہ ہوتا اور اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ۔" )
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے اپنے ارتکاب زنا کا خود اقرار کرے ، اور پھر بعد میں یہ کہے کہ میں نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا ہے یا میں جھوٹ بولا ہے یا میں اب اپنے اقرار سے رجوع کرتا ہوں تو اس صورت میں اس سے حد ساقط ہو جائے گی اسی طرح اگر وہ حد قائم ہونے کے درمیان اپنے اقرار سے رجوع کرے تو حد کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ ساقط ہو جائے گا جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے حد ساقط نہیں ہوگئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں