چور کے ہاتھ کاٹنے کا بیان
راوی:
طیبی نے کہا ہے کہ قطع السرقۃ میں اضافت بحذف مضاف مفعول کی طرف ہے یعنی معنی کے اعتبار سے یہ عنوان یوں ہے باب قطع اہل السرقۃ ۔
سرقہ کے معنی
سرقہ سین کے زبر اور اور را کے زیر کے ساتھ چوری کے معنی میں ہے اور اصطلاح شریعت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی مکلف کسی کے ایسے محرز مال میں سے کچھ یا سب خفیہ طور پر لے لے جس میں نہ تو اس کی ملکیت ہو اور نہ شبہ ملکیت ۔
چوری کی سزا اور اس کا نصاب :
یہ بات تو عنوان ہی سے معلوم ہوگئی کہ اسلامی قانون چور کی سزا قطع ید ہاتھ کاٹ دینا ہے لیکن اس بارے میں فقہاء کا باہم اختلاف ہے کہ کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ نصاب سرقہ مال کی وہ مقدار جس پر قطع ید کی سزا دی جائے گی کم از کم دس درہم تقریبا ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے اس سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی اور حضرت امام شافعی چوتھائی دینار سونا یا تین درہم چاندی اور یا اس قیمت کی کسی بھی چیز کو نصاب سرقہ قرار دیتے ہیں ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں چوتھائی دینار چرانے والے کو قطع ید کی سزا دینا مذکور ہے اور اس وقت چوتھائی دینار تین درہم کے برابر تھا اور ایک دینار کی مالیت بارہ درہم کے برابر تھی ۔ امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ :
حدیث (لا قطع الا فی دینار او عشرۃ دراہم )
" ایک دینار یا دس درہم سے کم کی چوری پر قطع ید نہیں ہے ۔"
نیز ھدایہ کے قول کے مطابق اس بارے میں " اکثر " پر عمل کرنا " اقل " پر عمل کرنے سے بہتر ہے کیونکہ معاملہ ایک انسانی عضو کے کاٹنے کا ہے اور " اقل " میں عدم جنایت کا شبہ ہو سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ فقہاء کے اس اختلاف کی بنیاد اس پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہاتھ کاٹنے کی سزا ایک ڈھال کی چوری پر دی گئی تھی چنانچہ حضرت امام شافعی کی طرف سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ڈھال کی قیمت تین درہم تھی جب کہ حنفیہ کی طرف سے شمنی کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں اس کی قیمت دس درہم تھی حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے ابن ابی شیبہ نے یہی نقل کیا ہے نیز کافی میں بھی یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دی گئی تھی تو اس کی قیمت دس درہم تھی ۔