دوبارہ اور سہ بارہ چوری کرنے کی سزا
راوی:
وعن أبي سلمة عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال في السارق : " إن سرق فاقطعوا يده ثم إن سرق فاقطعوا رجله ثم إن سرق فاقطعوا يده ثم إن سرق فاقطعوا رجله " . رواه في شرح السنة
(2/319)
3603 – [ 14 ] ( لم تتم دراسته )
وعن جابر قال : جيء بسارق إلى النبي صلى الله عليه و سلم قال : " اقطعوه " فقطع ثم جيء به الثانية فقال : " اقطعوه " فقطع ثم جيء به الثالثة فقال : " اقطعوه " فقطع ثم جيء به الرابعة فقال : " اقطعوه " فقطع فأتي به الخامسة فقال : " اقتلوه " فانطلقنا به فقتلناه ثم اجتررناه فألقيناه في بئر ورمينا عليه الحجارة . رواه أبو داود والنسائي
(2/319)
3604 – [ 15 ] ( لم تتم دراسته )
وروي في شرح السنة في قطع السارق عن النبي صلى الله عليه و سلم : " اقطعوه ثم احسموه "
اور حضرت ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کے بارے میں فرمایا کہ " جب وہ چوری کرے تو اس کا (دایاں ) ہاتھ کاٹا جائے ، پھر اگر چوری کرے تو اس کا (بایاں ) ہاتھ کاٹا جائے اور پھر اگر چوری کرے تو اس کا (دایاں ) پیر کاٹا جائے ۔" (شرح السنۃ )
تشریح :
پہلی مرتبہ چوری کرنے پر دایاں ہاتھ کاٹنا اور پھر دوبارہ چوری کرنے پر بایاں پیر کاٹنا تو علماء کا متفقہ مسلک ہے لیکن پھر تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے اور چوتھی مرتبہ چوری کرنے پر دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹا جائے ، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تیسری مرتبہ چوری کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بلکہ اس کو قید خانہ میں ڈال دیا جائے گا تاآنکہ وہ اسی میں مر جائے یا توبہ کرے امام اعظم کے اس مسلک کی دلیل یہ ہے کہ اول تو اس بات پر صحابہ کا اجماع واتفاق ہوگیا تھا ، دوم یہ کہ کسی شخص کو اس کے چاروں ہاتھ پیر سے محروم کر دینا گویا اس کو اپنے وجود کی بقاء کے سارے ذرائع واسباب سے محروم کر دینا ہے جو اس کے حق میں " سزا " سے بڑھ کر ایک قسم کی " زیادتی " ہے جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ اصل میں یہ حدیث تہدید وسیاسی مصالح پر محمول ہے ، دوسری بات یہ کہ محدثین نے اس کے صحیح ہونے میں کلام کیا ہے چنانچہ طحاوی نے اس حدیث پر ان الفاظ میں طعن کیا ہے کہ میں نے صحابہ کے بہت سارے آثار وقضایا (اور نظائر وفیصلے ) دیکھے لیکن انتہائی تلاش کے باوجود مجھے اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں مل سکی ، علاوہ ازیں میں نے بہت سے حفاظ حدیث سے ملاقات کی وہ سب اس حدیث (کی واقفیت ) سے انکار کرتے تھے ۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ پیر کاٹنے کے بارے میں اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ گھٹنے کے پاس سے پاؤں کاٹا جائے ۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چور کو لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا (دایاں) ہاتھ کاٹ دو ، چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ، دوبارہ اس کو پھر لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (اس کا بایاں پاؤں) کاٹ دیا گیا پھر تیسری مرتبہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا (اس کا بایاں ہاتھ ) کاٹ دو ، چنانچہ اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا پھر چوتھی مرتبہ لایا گیا تو فرمایا کہ (اس کا دایاں پیر ) کاٹ دو ، چنانچہ (اس کا دایاں پیر ) کاٹ دیا گیا ، اور پھر جب پانچویں مرتبہ اس کو لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مار ڈالو ، چنانچہ ہم اس کو (پکڑ کر ) لے گئے اور مار ڈالا ، اس کے بعد ہم اس کی لاش کو کھینچتے ہوئے لائے اور کنویں میں ڈال کر اوپر سے پتھر پھینک دئیے (ابو داؤد ، نسائی ) اور بغوی نے شرح السنۃ میں چور کے ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ " اس کا ہاتھ کاٹو اور پھر اس (ہاتھ کو داغ دو )۔"
تشریح :
" اور پھر اس کو داغ دو " کا مطلب یہ ہے کہ جس ہاتھ کو کاٹا گیا ہے اس کو گرم تیل یا گرم لوہے سے داغ دو تا کہ خون بند ہو جائے اگر داغا نہ جائے گا تو جسم کا تمام خون بہہ جائے گا اور چور ہلاک ہو جائے گا ۔
خطابی فرماتے ہیں کہ میرے علم میں ایسا کوئی فقیہہ وعالم نہیں ہے جس نے چور کو مار ڈالنا مباح رکھا ہو خواہ وہ کتنی ہی بار چوری کیوں نہ کرے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی حدیث (لا یحل دم امرء الا باحدی ثلث) کے ذریعہ منسوخ ہے ،
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چور کو مار ڈالنے کا حکم دیا وہ سیاسی وانتظامی مصالح کی بناء پر تھا ، چنانچہ امام وقت (حاکم ) کو یہ حاصل ہے کہ وہ مفسدہ پردازوں ، چور اچکوں اور ملکی امن وقانون کے مجرموں کی تعزیر میں اپنی رائے واجتہاد پر عمل کرے اور جس طرح چاہے ان کو سزا دے ۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا ہوگا کہ یہ شخص مرتد ہوگیا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون مباح کر دیا اور اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا ۔
اسی طرح بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اس بات پر محمول کرنا اولی ہے کہ وہ شخص چوری کو حلال جانتا تھا اس لئے بار بار اس کا ارتکاب کرتا تھا اسی وجہ سے اس کو اتنی سخت سزا دی گئی بہر کیف ان تاویلات میں سے کسی بھی ایک تاویل کو اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو مار ڈالنے کے بعد اس کی لاش کو اس طرح کھینچ کر کنویں میں ڈال دینا ہرگز مباح نہ ہوتا ۔