قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہوگی
راوی:
وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته فالإمام الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيته والرجل راع على أهل بيته وهو مسؤول عن رعيته والمرأة راعية على بيت زوجها وولده وهي مسؤولة عنهم وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسؤول عنه ألا فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته "
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن ) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا ، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ۔" (بخاری ومسلم)
تشریح :
" رعیت " اس چیز کو کہتے ہیں جو نگہبان کی حفاظت ونگرانی میں ہو چنانچہ کسی ملک کے باشندوں کو اس ملک کے حکمران کی رعیت اور رعایا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سب حکمران کی حفاظت ونگرانی میں ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر ہر شخص نگہبان ہے کہ مرد کے لئے گھر والے اس کی رعیت ہیں ، عورت کے لئے خاوند کا گھر بار اور اس کے بچے اس کی رعیت ہیں اور غلام کے مالک کا مال اس کی رعیت ہے ۔ یہاں تک کہ علماء نے لکھا ہے کہ ہر شخص اپنے جسم کے اعضاء جو اس کا نگہبان ہے اور وہ اعضاء اس کی رعیت ہیں لہٰذا قیامت کے دن ہر شخص سے اس کے اعضاء حو اس کے بارے میں بھی جواب طلب کیا جائے گا کہ تم نے ان اعضاء کو کہاں کہاں اور کس کس طرح استعمال کیا ؟ اور اس کو حدیث میں اس لئے نقل نہیں کیا گیا کہ یہ بالکل ظاہر بات ہے۔