رعایا کے حق میں بھلائی وخیر خواہی نہ کرنے والا حاکم جنت کی بو سے محروم رکھا جائے گا
راوی:
وعنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " ما من عبد يسترعيه الله رعية فلم يحطها بنصيحة إلا لم يجد رائحة الجنة "
(2/339)
3688 – [ 28 ] ( صحيح )
وعن عائذ بن عمرو قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن شر الرعاء الحطمة " . رواه مسلم
(2/339)
3689 – [ 29 ] ( صحيح )
وعن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم من ولي من أمر أمتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه ومن ولي من أمر أمتي شيئا فرفق بهم فارفق به " . رواه مسلم
اور حضرت معقل ابن یسار کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " اللہ تعالیٰ جس شخص سے رعیت کی نگہبانی کرائے یعنی جس کو رعیت کا حاکم ونگہبان بنائے ) اور وہ بھلائی وخیر خواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو وہ بہشت کی بو نہ پائے گا ۔" (بخاری ومسلم )
تشریح :
" تو وہ جنت کی بو نہ پائے گا ۔" کا مطلب یا یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن بہشت کی بو پانے والوں کے ساتھ بو نہ پائے گا حالانکہ بہشت کی بو پانچ سو برس کی مسافت کے فاصلے سے بھی آئے گی یا یہ مطلب ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ بہشت کی بو نہیں پائے گا اور یا یہ کہ اگر وہ کفر پر مرے گا یا رعایا پر ظلم کرنے کو حلال جانے اور اسی عقیدے پر مر جائے تو اس کو مطلق بہشت کی بو میسر نہیں ہوگی ۔
بدترین حاکم وہ ہے جو اپنی رعایا پر ظلم کرے
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بارگاہ قاضی الحاجات میں یہ عرض کی ) اے میرے پرورگار " جس شخص کو میری امت کے (دینی و دنیاوی) امور میں سے کسی کا ولی و متصرف بنایا گیا اور پھر اس نے (اپنے اختیارولایت اور تصرف کے ذریعہ) میری امت کے لوگوں پر مشقت اور سختی مسلط کر دی تو اس شخص پر تو بھی مشقت و سختی مسلط کر دے اور جس شخص کو میری امت کے امور میں کسی چیز کا والی و متصرف بنایا گیا اور اس نے میری امت کے لوگوں کے ساتھ نرمی و بھلائی کا برتاؤ کیا تو اس شخص کے ساتھ تو بھی نرمی و عنایت کا معاملہ فرما۔(مسلم)