عادل حکمران کا مرتبہ عظیم
راوی:
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن وكلتا يديه يمين الذين يعدلون في حكمهم وأهليهم وما ولوا " . رواه مسلم
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بلاشک عادل حکمران اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر جگہ پائیں گے جو رحمن (اللہ ) کے داہنے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں اور عادل حکمران وہ ہیں ) جو اپنے احکام اپنے اہل اور اپنے زیر تصرف معاملات میں عدل وانصاف کرتے ہیں ۔" (مسلم )
تشریح :
" داہنے ہاتھ کی طرف الخ " یہ اللہ کے نزدیک عادل حکمران کے مرتبہ عظیم اور جلالت قدر کا کنایۃ پیرایہ بیان ہے کیونکہ جو شخص عظیم قدر ہوتا ہے ۔ وہ دائیں طرف کھڑا ہوتا یا بیٹھتا ہے ۔
" اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں " یہ دفع توہم کے لئے فرمایا گیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ داہنا ہاتھ ، بائیں ہاتھ کے مقابل میں کہا گیا ہے کیونکہ بایاں نسبتًا کمزور ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی کمزوری اور نقصان سے پاک ومنزہ ہے واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ کی نسبت متشابہات میں سے ہے کہ اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم ظاہری طور پر " ہاتھ " سے مراد قوت وغلبہ ہے۔
" حکام میں عدل وانصاف " کا مطلب یہ ہے کہ حکومت وامارت کے تعلق سے ان کے ذمے جو امور ہیں ان کی انجام دہی میں وہ انصاف ، ایمان داری اور دیانت کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اہل میں عدل وانصاف کا مطلب یہ ہے کہ ان کے زیر تسلط جو لوگ ہیں خواہ وہ ان کے اہل وعیال ہوں یا رعیت کے عام لوگ ہوں سب کے حقوق کی ادائیگی میں جو ان پر واجب ہیں پورا پورا انصاف کرتے ہیں ۔
اسی طرح " زیر تصرف معالات میں عدل وانصاف " کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں ان کی ولایت ونگہبانی میں ہیں جیسے یتیم اور غربا کی پرورش اور وقف کے مال کی خبر گیری وغیرہ ، ان میں وہ پوری دیانت داری اور انصاف کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ہیں ۔
ایک مرد حق گو کا قول ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کے بارے میں بھی عدل وانصاف کرے بایں طور کہ اپنے اوقات ایسی چیزوں میں ضائع نہ کرے جن میں اپنا وقت صرف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے بلکہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی چیزوں اور مخلوق اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں مشغول رکھے اور حق تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری اور ممنوع چیزوں سے اجتناب پر مداومت اختیار کرے جیسا کہ اولیاء کرام اور اہل اللہ کا طریقہ ہے ، یا اپنے وقت کا اکثر حصہ ان چیزوں میں مشغول رکھے جیسا کہ مؤمنین وصالحین کا معمول ہے ۔