سربراہان حکومت کی حاشیہ نشینی دین و دنیا کی تباہی کا باعث ہے
راوی:
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " من سكن البادية جفا ومن أتبع الصيد غفل ومن أتى السلطان افتتن " . رواه أحمد والترمذي والنسائي وفي رواية أبي داود : " من لزم السلطان افتتن وما ازداد عبد من السلطان دنوا إلا ازداد من الله بعدا "
اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ جاہل ہوتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے (احمد، ترمذی، نسائی )
اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ ( جو شخص بادشاہ کی ملازمت میں رہتا ہے (یعنی اس کے ہاں ہر وقت حاضر باش و حاشیہ نشین اور مددگار رہتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کا جتنا زیادہ قرب چاہتا ہے اتنا ہی اللہ سے دور ہو جاتا ہے ۔
تشریح :
جو شخص جنگل (دیہات ) میں رہتا ہے الخ " سے دیہات میں رہنے والوں کی ہتک وتضحیک مراد نہیں ہے اور نہ ان کو کمتر بنانا مقصود ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ دیہات وگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ علماء وصلحاء اور اولیاء اللہ کی صحبت میسر نہیں ہوتی اس لئے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور ان میں علم و معرفت عقل ودانش اور فہم وذکاوت کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ۔
" جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ لہوولعب اور حصول لذت وخوشی کی خاطر ہر وقت شکار کی دھن میں رہتا ہے وہ طاعات وعبادت اور جمعہ اور جماعت نماز کے التزام سے غافل ہو جاتا ہے نیز اس میں شفقت ومحبت اور نرم خوئی کی صفات ختم ہو جاتی ہیں،
واضح رہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے جو شکار کو عادت بنا لیتے ہیں اور حلال رزق حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے مطلق شکار کے مباح وحلال ہونے میں شبہ نہیں ہے اور بعض صحابہ نے شکار کیا ہے البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس کبھی شکار کرنے سے منع نہیں کیا ہے ۔
حدیث کے آخر میں بادشاہ وحاکم کی حاشیہ نشینی اور دربار حکومت میں حاضر باشی کی خرابی کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص بغیر کسی ضرورت وحاجت کے بادشاہ وحاکم کی چوکھٹ پر گیا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا کیونکہ اگر وہ بادشاہ حاکم کے ان افعال واعمال کی موافقت وحمایت کرے گا جو خلاف شرع ہوں تو اس کا دین خطرہ میں پڑے گا اور اگر ان کی مخالفت کرے گا تو اپنی دنیا خراب کرے گا مظہر کہتے ہیں کہ جو شخص بادشاہ وحاکم کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں مداہنت اختیار کی (یعنی ان کے خلاف شرع امور پر ان کو ٹوکا نہیں ) تو اس نے فتنہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا (یعنی اپنا دین خطرے میں ڈالا ) اور اگر اس نے مداہنت اختیار نہیں کی بلکہ ان کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو اس صورت میں دربار حکومت میں اس کی حاضری جہاد سے بھی افضل ہوگی۔
دہلوی نے مسند فردوس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ :
حدیث (من ازداد علما ولم یزدد فی الدنیا زہدا لم یزدد من اللہ الا بعد ا )
٫٫جس شخص نے اپنا علم تو زیادہ کیا لیکن دنیا کے (مال ومتاع ) میں بے رغبتی کو زیادہ نہیں کیا تو اس نے اللہ سے دوری کو زیادہ کیا ۔"