مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 845

حکمران کے حق میں حکومت کے تین تدریجی مرحلے

راوی:

وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال : " ما من رجل يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا أتاه الله عز و جل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره أو أوبقه إثمه أولها ملامة وأوسطها ندامة وآخرها خزي يوم القيامة "

اور حضرت ابوامامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس شخص نے (دس آدمیوں کی ) بھی یا اس سے زائد لوگوں کی حکمرانی قبول کی اس کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس طرح طوق میں جکڑا ہوا حاضر کرے گا (یعنی میدان حشر میں اٹھائے گا ) کہ اس کے ہاتھ نے اس کی گردن کو جکڑ رکھا ہوگا یہاں تک کہ یا تو اس کی نیکی اس کو چھڑائے گی (یعنی اگر اس نے دنیا میں اپنے زیردستوں کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ اور حسن سلوک کیا ہوگا تو یہ اس کی نجات کا باعث بنے گا یا اس کا گناہ (یعنی اپنے زیردستوں پر اس کا کیا ہوا ظلم وغیرہ )' اس کی ہلاکت (عذاب ) میں مبتلا کر دے گا ۔ (یاد رکھو) سرداری وحکمرانی کی ابتداء ملامت ہے اس کا درمیان پیشمانی وندامت ہے اور اس کا آخر قیامت کے دن کی ذلت ورسوائی ہے ۔"

تشریح :
حکومت وسرداری کی حقیقت اور اس کا مآل کیا ہے ؟ اس کو یہ حدیث واضح کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص حکومت وسیادت کی مسند پر فائز ہوتا ہے تو اس کا ابتدائی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو ہر طرف سے ملامت کے تیر کا نشانہ بننا پڑتا ہے ، لوگ مطعون کرتے ہیں کہ اس نے ایسا ویسا کیا ، کوئی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتا ہے ، کوئی خویش پروری اور جننہ داری کی تہمت لگاتا ہے تو کوئی فرائض حکومت کی انجام دہی میں غفلت کا ملزم گردانتا ہے عرضیکہ ہر طرف سے طعن وتشنیع ، سب وشتم اور اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی ہے اس کے بعد درمیانی مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ حکمران حکومت کی سخت کوشیوں اور لوگوں کے طعن وتشنیع سے بددل ہو کر سخت ندامت وپیشیمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس منصب کو کیوں قبول کیا اور اس محنت ومصیبت میں اپنے آپ کو مبتلا کیا اور پھر اس کا آخری حصہ ذلت ورسوائی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ دنیا کی ذلت ورسوائی بھی اور آخرت کی ذلت ورسوائی بھی! دنیا کی ذلت رسوائی تو یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اس منصب سے معزول کر دیا جاتا ہے تو اس کی خواری وتحقیر ہوتی ہے یا اگر رعایا اس کے طرز حکومت میں اور انتظام سلطنت سے مطمئن نہیں ہوتی تو ان کے دل ان کے دلوں میں اس کے تئیں سخت قسم کی نفرت وحقارت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک حکمران کے لئے اس سے بڑھ کر دنیا میں ذلت ورسوائی اور کیا ہو سکتی ہے اور آخرت کی ذلت ورسوائی یہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں جو کچھ کرتا ہے اس کی جواب دہی احکم الحاکمین کی بارگاہ میں کرنی ہوتی ہے یہاں تک کہ اس سے جو کو تاہیاں ، جو ظلم اور جو غلط افعال سرزد ہوئے ہیں ان کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہونا پڑتا ہے ۔( فاعتبروا یااولی الابصار)۔
یہاں حدیث میں صرف قیامت کے دن کی ذلت ورسوائی کا ذکر کیا گیا ہے دنیا کی خواری مذکور نہیں ہے اس کی وجہ یہ کہ قیامت کے دن کی ذلت ورسوائی دنیا کی ذلت ورسوائی کہیں زیادہ سخت ہے اسی لئے اس کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں