مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 869

منصب قضاقبول کرنے سے حضرت ابن عمر کا انکار

راوی:

وعن ابن موهب : أن عثمان بن عفان رضي الله عنه قال لابن عمر : اقض بين الناس قال : أو تعاقبني يا أمير المؤمنين ؟ قال : وما تكره من ذلك وقد كان أبوك قاضيا ؟ قال : لأني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من كان قاضيا فقضى بالعدل فبالحري أن ينقلب منه كفافا " . فما راجعه بعد ذلك . رواه الترمذي
(2/352)

3744 – [ 14 ] ( لم تتم دراسته )
وفي رواية رزين عن نافع أن ابن عمر قال لعثمان : يا أمير المؤمنين لا أقضي بين رجلين : قال : فإن أباك كان يقضي فقال : إن أبي لو أشكل عليه شيء سأل رسول الله صلى الله عليه و سلم ولو أشكل على رسول الله صلى الله عليه و سلم شيء سأل جبريل عليه السلام وإني لا أجد من أسأله وسمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من عاذ بالله فقد عاذ بعظيم " . وسمعته يقول : " من عاذ بالله فأعيذوه " . وإني أعوذ بالله أن تجعلني قاضيا فأعفاه وقال : لا تخبر أحدا

اور حضرت ابن موہب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ابن عفان نے (اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابن عمر سے کہا کہ " لوگوں کا قاضی بن جاؤ (یعنی حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر کی خدمت میں منصب قضا کی پیش کش کی ) حضرت ابن عمر نے کہا " امیر المؤمنین ! مجھ کو اس کام سے معاف رکھئے ۔" حضرت عثمان نے فرمایا " تم اس منصب کو کیوں ناپسند کرتے ہو !حالانکہ تمہارے والد ! حضرت عمر فاروق ) تو اپنے دور خلافت کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ) قضاء کا کام کرتے تھے ؟ ۔" حضرت ابن عمر نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " جو شخض قضاء پر فائز ہو اور مبنی بر انصاف فیصلے کرے تو وہ اس لائق ہے کہ وہ اس منصب سے برابر سرابر جدا ہو (یعنی نہ نقصان پہنچائے نہ فائدہ نہ ثواب پائے نہ عذاب ۔" ) اس کے بعد حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی (ترمذی) اور رزین کی روایت میں جو انہوں نے حضرت نافع سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں " کہ حضرت ابن عمر نے کہا " امیر المؤمنین " میں (تو) دو آدمیوں کے درمیان (بھی ) کوئی حکم وفیصلہ نہیں کروں گا (چہ جائیکہ بہت زیادہ لوگوں کا قاضی بنوں ۔" حضرت عثمان نے فرمایا " تمہارے والد (حضرت عمر فاروق ) تو لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے ؟" حضرت ابن عمر نے کہا " میرے (والد کی بات تو یہ تھی کہ ) اگر ان کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشواری پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے پوچھ لیا کرتے تھے جب کہ میں ایسے شخص کو نہیں پاتا جس سے پوچھ لیا کروں گا اور میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی اس نے بڑی ذات کی پناہ مانگی ۔" نیز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ (بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذریعہ پناہ مانگے اس کو پناہ دو ۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے قاضی مقرر کریں " چنانچہ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیا ، لیکن ان سے فرمایا کہ ' کسی ) اور کو آگاہ نہ کرنا کہ وہ منصب قضا قبول نہ کرے ورنہ لوگ عام طور پر اس منصب کو قبول کرنے سے گریز کرنے لگیں گے اور نظام حکومت معطل ہو کر رہ جائے گا ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں