اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
راوی: عبداللہ مالک اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيْئٍ قَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آرْسَلَکَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَکِ فَأَتَتْ بِذَلِکَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُکَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا
عبداللہ مالک اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کے دوسرے شوہر) نے ام سلیم (انس کی والدہ) سے کہا کہ میں نے (آج) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو کمزور اور سست پایا ہے۔ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز ہے؟ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا ہاں ہے یہ کہہ کر ام سلیم نے جو کی چند روٹیاں نکالیں۔ پھر اپنی اوڑھنی لی اور اس میں ان روٹیوں کو لپیٹا اور چھپا کر میرے ہاتھ میں دے دیں۔ اور کچھ اوڑھنی مجھے اڑھا دی اس کے بعد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ اور لوگ بھی تھے۔ بس میں (خاموش) کھڑا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تم کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! پھر دریافت کیا کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے فرمایا کہ اٹھو چلو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بمعہ لوگوں کے) چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چلا اور ابوطلحہ کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دی اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام سلیم سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ ہمارے پاس تشریف لا رہے ہیں۔ اور اتنا سامان نہیں کہ ہم ان (سب کو) کھلا سکیں ام سلیم نے کہا! اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (استقبال کے لئے) گھر سے باہر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تشریف لائے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام سلیم جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ۔ ام سلیم وہی روٹیاں جو ان کے پاس تھیں لے آئیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ٹکڑے کریں۔ ( چنانچہ ان کو ریزہ ریزہ کیا گیا) اور ام سلیم نے کپی میں سے گھی نچوڑا جو سالن ہو گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پڑھ کر دم کردیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دس دس آدمیوں کو بلاؤ چنانچہ دس آدمیوں کو بلا کر کھانے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا پھر جب یہ اٹھ گئے تو دس کو اور بلایا گیا۔ یہاں تک کہ اسی طرح تمام لوگوں نے پیٹ بھر کر کھا لیا یہ سب ستر یا اسی آدمی تھے۔
Narrated Anas bin Malik:
Abu Talha said to Um Sulaim, "I have noticed feebleness in the voice of Allah's Apostle which I think, is caused by hunger. Have you got any food?" She said, "Yes." She brought out some loaves of barley and took out a veil belonging to her, and wrapped the bread in part of it and put it under my arm and wrapped part of the veil round me and sent me to Allah's Apostle. I went carrying it and found Allah's Apostle in the Mosque sitting with some people. When I stood there, Allah's Apostle asked, "Has Abu Talha sent you?" I said, "Yes". He asked, "With some food? I said, "Yes" Allah's Apostle then said to the men around him, "Get up!" He set out (accompanied by them) and I went ahead of them till I reached Abu Talha and told him (of the Prophet's visit). Abu Talha said, "O Um Sulaim! Allah's Apostle is coming with the people and we have no food to feed them." She said, "Allah and His Apostle know better." So Abu Talha went out to receive Allah's Apostle. Allah's Apostle came along with Abu Talha. Allah's Apostle said, "O Um Sulaim! Bring whatever you have." She brought the bread which Allah's Apostle ordered to be broken into pieces. Um Sulaim poured on them some butter from an oilskin. Then Allah's Apostle recited what Allah wished him to recite, and then said, "Let ten persons come (to share the meal)." Ten persons were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, "Let another ten do the same." They were admitted, ate their fill and went out. Then he again said, '"'Let another ten persons (do the same.)" They were admitted, ate their fill and went out. Then he said, "Let another ten persons come." In short, all of them ate their fill, and they were seventy or eighty men.