مدعا علیہ کا حلف کا حق دیا جائے گا خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو
راوی:
وعن الأشعث بن قيس قال : كان بيني وبين رجل من اليهود أرض فحجدني فقدمته إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " ألك بينة ؟ " قلت : لا قال لليهودي : " احلف " قلت : يا رسول الله إذن يحلف ويذهب بمالي فأنزل الله تعالى : ( إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا )
الآية . رواه أبو داود وابن ماجه
اور حضرت اشعث ابن قیس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا " ایک زمین میرے اور ایک یہودی کے درمیان مشترک تھی لیکن یہودی نے (اس زمین پر ) میرے حصے (کو تسلیم کرنے ) سے انکار کر دیا ، چنانچہ میں اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور اپنا معاملہ پیش کیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا " نہیں " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ " تم قسم کھاؤ " میں نے یہ (سن کر ) عرض کیا کہ " یا رسول اللہ !یہ اس وقت قسم کھا لے گا اور میرا مال ہڑپ کر لے گا ۔" چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (اسی طرح کے ایک قضیہ کے سلسلے میں جس کا ذکر حضرت ابن مسعود کی روایت میں گزر چکا ہے ) یہ آیت نازل فرمائی ۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا اُولٰ ى ِكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ) 3۔ آل عمران : 77) یقینا جو لوگ معاوضہ حقیر لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے کیا ہے اور (بمقابلہ ) اپنی قسموں کے الخ اس روایت کو ابوداؤد ، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے ۔ "
تشریح :
حدیث میں جو آیت نقل کی گئی ہے وہ دراصل اس قضیہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جو حضرت ابن مسعود کی روایت (نمبر ٢) میں بیان ہوا ہے ، چونکہ اس روایت میں جو قضیہ ذکر کیا گیا ہے وہ پھی اس قضیہ کی مانند ہے اس لئے یہاں اسی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ پوری روایت حضرت ابن مسعود کی روایت کی تشریح میں نقل کی جا چکی ہے ۔
حضرت اشعث کا نقطہ اعتراض یہ تھا کہ اس یہودی کو قسم کھانے کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی قسم پر فیصلہ کا انحصار ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ بطور خاص مالی معاملات میں یہودیوں کی فطرت کیا ہے ، اس یہودی کے لئے اس میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ میرا مال ہڑپ کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھا لے ، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کی قسم پر فیصلہ کا انحصار نہ رکھا جائے ۔ حضرت اشعث کے اس نقطہ اعتراض کے جواب میں صرف اس آیت کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے جو اس سلسلہ میں نازل ہوئی تھی ، لہٰذا اس آیت کو ذکر کرنا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ہے کہ شریعت نے اس صورت میں کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مدعاعلیہ سے قسم لی جائے اور چونکہ اس طرح کے قضیہ میں قسم کھانا مدعا علیہ کا حق ہے اس لئے کسی نقطہ اعتراض کی بنا پر مدعا علیہ کو اس حق سے محروم کرنا اس مقررہ ضابطہ کی خلاف ورزی کرنا ہے جو ہمارے لئے غیرموزوں بات ہے ۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی مدعا علیہ اپنے حق سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور اس مقصد سے جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ مدعی کا مال ہڑپ کرے تو اس کو آگاہ ہو جانا چاہئے کہ اس کی اس جھوٹی قسم کا وبال اس کی گردن پر ہوگا اور جیسا کہ قرآن مجید نے اعلان کیا ہے ۔ اس شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔