اذان کا طریقہ
راوی: عمرو بن مرزوق , شعبہ , عمرو بن مرہ , ابن ابی لیلیٰ
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَی ح و حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَی قَالَ أُحِيلَتْ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَقَدْ أَعْجَبَنِي أَنْ تَکُونَ صَلَاةُ الْمُسْلِمِينَ أَوْ قَالَ الْمُؤْمِنِينَ وَاحِدَةً حَتَّی لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبُثَّ رِجَالًا فِي الدُّورِ يُنَادُونَ النَّاسَ بِحِينِ الصَّلَاةِ وَحَتَّی هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رِجَالًا يَقُومُونَ عَلَی الْآطَامِ يُنَادُونَ الْمُسْلِمِينَ بِحِينِ الصَّلَاةِ حَتَّی نَقَسُوا أَوْ کَادُوا أَنْ يَنْقُسُوا قَالَ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمَّا رَجَعْتُ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ اهْتِمَامِکَ رَأَيْتُ رَجُلًا کَأَنَّ عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ أَخْضَرَيْنِ فَقَامَ عَلَی الْمَسْجِدِ فَأَذَّنَ ثُمَّ قَعَدَ قَعْدَةً ثُمَّ قَامَ فَقَالَ مِثْلَهَا إِلَّا أَنَّهُ يَقُولُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ وَلَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّی أَنْ تَقُولُوا لَقُلْتُ إِنِّي کُنْتُ يَقْظَانَ غَيْرَ نَائِمٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّی لَقَدْ أَرَاکَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو لَقَدْ أَرَاکَ اللَّهُ خَيْرًا فَمُرْ بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ أَمَا إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَی وَلَکِنِّي لَمَّا سُبِقْتُ اسْتَحْيَيْتُ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا قَالَ وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا جَائَ يَسْأَلُ فَيُخْبَرُ بِمَا سُبِقَ مِنْ صَلَاتِهِ وَإِنَّهُمْ قَامُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَرَاکِعٍ وَقَاعِدٍ وَمُصَلٍّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّی قَالَ عَمْرٌو وَحَدَّثَنِي بِهَا حُصَيْنٌ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی حَتَّی جَائَ مُعَاذٌ قَالَ شُعْبَةُ وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ حُصَيْنٍ فَقَالَ لَا أَرَاهُ عَلَی حَالٍ إِلَی قَوْلِهِ کَذَلِکَ فَافْعَلُوا قَالَ أَبُو دَاوُد ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مَرْزُوقٍ قَالَ فَجَائَ مُعَاذٌ فَأَشَارُوا إِلَيْهِ قَالَ شُعْبَةُ وَهَذِهِ سَمِعْتُهَا مِنْ حُصَيْنٍ قَالَ فَقَالَ مُعَاذٌ لَا أَرَاهُ عَلَی حَالٍ إِلَّا کُنْتُ عَلَيْهَا قَالَ فَقَالَ إِنَّ مُعَاذًا قَدْ سَنَّ لَکُمْ سُنَّةً کَذَلِکَ فَافْعَلُوا قَالَ و حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ أَمَرَهُمْ بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ثُمَّ أُنْزِلَ رَمَضَانُ وَکَانُوا قَوْمًا لَمْ يَتَعَوَّدُوا الصِّيَامَ وَکَانَ الصِّيَامُ عَلَيْهِمْ شَدِيدًا فَکَانَ مَنْ لَمْ يَصُمْ أَطْعَمَ مِسْکِينًا فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ فَکَانَتْ الرُّخْصَةُ لِلْمَرِيضِ وَالْمُسَافِرِ فَأُمِرُوا بِالصِّيَامِ قَالَ و حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا قَالَ وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَفْطَرَ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يَأْکُلَ لَمْ يَأْکُلْ حَتَّی يُصْبِحَ قَالَ فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَرَادَ امْرَأَتَهُ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ نِمْتُ فَظَنَّ أَنَّهَا تَعْتَلُّ فَأَتَاهَا فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَرَادَ الطَّعَامَ فَقَالُوا حَتَّی نُسَخِّنَ لَکَ شَيْئًا فَنَامَ فَلَمَّا أَصْبَحُوا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةُ أُحِلَّ لَکُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِکُمْ
عمرو بن مرزوق، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نماز ایک جماعت کے ساتھ مل کر ہوا کرے اور میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ لوگوں کو گھروں پر بھیج دیا کروں جو یہ پکار آیا کریں کہ نماز کا وقت آگیا ہے اور ارادہ کیا اس بات کو کچھ لوگ ٹیلوں پر چڑھ کر نماز کے وقت کا اعلان کر دیا کریں یہاں تک کہ لوگ ناقوس بجانے لگے یا بجانے کے قریب ہو گئے اتنے میں ایک انصاری شخص آکر بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گیا مجھے اسی کا خیال رہا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہتمام کر رہے تھے تو میں نے ایک شخص کو دیکھا گویا وہ سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ہے اس نے مسجد میں کھڑے ہو کر اذان کہی پھر وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھا اور جو کلمے اس نے اذان میں کہے تھے وہی پھر دہرائے البتہ اس میں لفط قَد قَامَتِ الصَّلوٰۃ کا اضافہ کیا گیا اگر لوگ مجھے جھوٹا نہ کہیں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں جاگ رہا تھا سویا ہوا نہیں تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حق تعالیٰ نے تجھے بہتر خواب دکھایا ہے (یہ جملہ ابن المثنیٰ کا ہے عمرو بن مرزق نے اس کو ذکر نہیں کیا) پس تو بلال سے کہہ وہ اذان دے اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے لیکن چونکہ وہ مجھ سے پہلے بیان کر چکے تھے اس لئے میں نے بیان کرنے میں شرم محسوس کی۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا کہ جب کوئی شخص مسجد میں آتا (اور دیکھتا کہ جماعت ہو رہی ہے) تو پوچھتا کہ کتنی رکعتیں ہو گئیں ہیں؟ سو جتنی رکعتیں ہو چکی ہوتیں اس کو بتا دیا جاتا اور وہ اس قدر نماز میں آکر شریک ہو جاتا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لوگ مختلف حالتوں میں ہوتے تھے کوئی کھڑا ہے کوئی رکوع میں ہے کوئی قعدہ میں ہے تو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھ رہا ہے ابن المثنیٰ کہتے ہیں کہ عمرو بن مرہ نے کہا کہ یہ مجھ سے حصین نے بواسطہ ابن ابی لیلیٰ بیان کیا ہے یہاں تک کہ معاذ آگئے شعبہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے حصین سے براہ راست بھی سنا ہے یعنی فقال اراہ سے کَذَالِکَ فَافعَلُوا تک ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ پھر میں عمرو بن مرزق کی حدیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاذ آئے اور ان کو اشارہ سے بتایا گیا کہ (اتنی رکعتیں ہو چکی ہیں) شعبہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے حصین سے سنا ہے حضرت معاذ نے کہا کہ میں تو جس حال میں آپ کو دیکھوں گا وہی کروں گا (یعنی آتے ہی نماز میں شریک ہو جاؤں گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا معاذ نے تمہارے واسطے ایک سنت جاری کردی ہے لہذا تم بھی اسی طرح کیا کرو ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو لوگوں کو (ہر ماہ) تین دن روزے رکھنے کا حکم فرمایا اس کے بعد رمضان شریف کے روزے فرض ہوگئے ان لوگوں کو روزہ کی عادت نہ تھی اس لئے روزہ ان پر بہت شاق گزرتا تھا تو جو شخص روزہ نہ رکھ پاتا وہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیتا پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم میں سے جو شخص رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے پس رخصت ختم ہوگئی مگر مسافر اور مریض کے لئے باقی رہی باقی سب لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہوا ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہمارے اصحاب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء اسلام میں اگر کوئی شخص روزہ افطار کر کے سوجاتا اور کھانا نہ کھاتا تو پھر دوسرے روزے کے افطار تک اس کو کھانا جائز نہ رہتا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے صحبت کرنا چاہی وہ بولی میں سو گئی تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا کہ یہ بہانہ کر رہی ہے اس لئے ان سے صحبت کرلی ایک اور انصاری شخص نے افطار کے بعد کھانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ ذرا ٹھہرو ہم کھانا گرم کرلیں اتنے میں وہ سوگیا جب صبح ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہارے لئے روزہ کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا حلال ہے۔