جہاد ، حقوق العباد کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے
راوی:
عن أبي قتادة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قام فيهم فذكر لهم أن الجهاد في سبيل الله والإيمان بالله أفضل الأعمال فقام رجل فقال : يا رسول الله أرأيت إن قتلت في سبيل الله يكفر عني خطاياي ؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم إن قتلت في سبيل الله وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر " . ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كيف قلت ؟ " فقال : أرأيت إن قتلت في سبيل الله أيكفر عني خطاياي ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل قال لي ذلك " . رواه مسلم
(2/366)
3806 – [ 20 ] ( صحيح )
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " القتل في سبيل الله يكفر كل شيء إلا الدين " . رواه مسلم
اور ابوقتادہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور (اس خطبہ میں ان کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے بہتر اعمال ہیں ۔" (یہ سن کر ) ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتایئے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہاں " بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے گئے کہ تم (سختیوں پر ) صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہیں ہو بلکہ دشمن کے مقابلے پر جمے رہنے والے ہو ۔" پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ " تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے عرض کیا کہ " مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو ، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو بلکہ دشمن کے مقابلے میں جمنے والے ہو مگر دین (یعنی وہ قرض معاف نہیں ہوگا جس کی ادائیگی کی نیت ہی نہ ہو ') اور مجھ سے جبرائیل علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے ۔" (مسلم )
تشریح :
ایمان کا سب سے بہتر عمل ہونا تو ظاہر ہی ہے اس لئے کسی توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ رہی بات تو اس عمل (یعنی جہاد) کو اس اعتبار سے سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے کہ تمام نیک اعمال میں یہی ایک عمل ایسا ہے جس کے ذریعہ اعلاء کلمۃ اللہ (اللہ کے دین کو سربلند کرنے ) کا فریضہ سر انجام پاتا ہے ، اللہ کے باغیوں اور دین کے دشمنوں کی بیخ کنی ہوتی ہے ، جان ومال کی قربانی پیش کی جاتی ہے اور مختلف قسم کی تکلیفیں مشقتیں اور پریشانیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں گویا یہ اعمال اللہ کے حضور میں اور اس کی راہ میں بندے کے جذبہ عبودیت اور بندگی اور کمال ایثار وقربانی کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے اور جو دوسری احادیث میں نماز کو سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جس میں مداومت وہمیشگی ہے اور جو ایک عمل ہونے کے باوجود عبادات کثیرہ پر مشتمل ہے ۔
" مگر دین " کے بارے میں علامہ تورپشتی لکھتے ہیں کہ یہاں " دین " سے مراد " مسلمانوں کے حقوق " ہیں لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جہاد سے حقوق العباد کے علاوہ تمام گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں ۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" اللہ کی راہ (یعنی جہاد میں ) مارا جانا دین (حقوق العباد ) کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے " (مسلم )
تشریح :
علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز (پانی میں لڑی جانے والی جنگ ) کے شہداء اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی ان کے ذمے جو حقوق العباد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دیتا ہے ۔