جہاد میں پاسبانی کی خدمت انجام دینا بد عملیوں کا کفارہ اور نجات ابدی کا ذریعہ ہے
راوی:
وعن ابن عائذ قال : خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم في جنازة رجل فلما وضع قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : لا تصل عليه يا رسول الله فإنه رجل فاجر فالتفت رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى الناس فقال : " هل رآه أحد منكم على عمل الإسلام ؟ " فقال رجل : نعم يا رسول الله حرس ليلة في سبيل الله فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه و سلم وحثا عليه التراب وقال : " أصحابك يظنون أنك من أهل النار وأنا أشهد أنك من أهل الجنة " وقال : " يا عمر إنك لا تسأل عن أعمال الناس ولكن تسأل عن الفطرة " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "
اور حضرت ابن عائذ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے جنازے کے ساتھ چلے تاکہ اس کی نماز پڑھیں جب جنازہ رکھا گیا تو حضرت عمر ابن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اس جنازے کی نماز نہ پڑھئے کیونکہ یہ ایک فاسق شخص تھا (یہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی شخص نے اس کو اسلام کا کوئی کام کرتے دیکھا ہے ؟ (یعنی اگر تم میں سے کسی نے اس کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے جو حقیقی اسلام پر دلالت کرے تو وہ ہمیں بتائے ) ایک شخص نے عرض کیا " ہاں ، یا رسول اللہ ! اس شخص نے ایک رات اللہ کی راہ یعنی جہاد میں پاسبانی کی خدمت انجام دی تھی " ۔ (یہ سن کر ') رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ کی نماز پڑھی اور (تدفین کے وقت اس کی قبر پر ') مٹی ڈالی اور (گویا میت کو مخاطب کر کے ) فرمایا کہ تیرے ساتھیوں کا تو یہ گمان ہے کہ تو دوزخی ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے اور پھر حضرت عمر سے فرمایا عمر ! تم سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ تم سے دین اسلام کی بابت پوچھا جائے گا ۔" (اس روایت کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے ')
تشریح :
بلکہ تم سے دین اسلام کی بابت پوچھا جائے گا " یعنی اس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا جو شعار دین اور علامات یقین میں سے ہونے کی وجہ سے اسلام پر دلالت کرے ۔
اس ارشاد کا مقصد دراصل حضرت عمر کو اس جرات سے باز رکھنا تھا جو انہوں نے اس میت کے فسق کا تذکرہ کر کے کی تھی اور وہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے چنانچہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ کسی مسلمان کی محض ظاہر زندگی اور اس کے اعمال کو دیکھ کر اس کی اخروی حیثیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس چیز کو معیار بنانا چاہئے جو اس کے دین واسلام پر کامل یقین واعتقاد کی غمازی کرے اور یہ ثابت کرے کہ اس کے اصل ایمان میں کوئی کھوٹ اور اس کے بنیادی عقائد میں کوئی کجی نہیں ہے جہاں تک اعمال کا تعلق ہے تو اللہ کی ذات بڑی بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔
طیبی نے حدیث کے مذکورہ جملہ کی وضاحت یہ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو یہ متنبہ کیا کہ عمر ! تمہیں اس موقع پر میت کے برے اعمال اور اس کے ظاہری فسق کا ذکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ تمہیں یہ چاہئے کہ تم اس کے نیک اعمال اور اس کی اچھی باتوں کو سامنے لاؤ جیسا کہ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے کہ :
(اذکرو اموتاکم بالخیر)۔
" تم اپنے مرے ہوئے لوگوں کا تذکرہ بھلائی کے ساتھ کرو ۔"
نیز حضرت عمر کو ان کے اس اقدام و جرات سے روکنا مقصود تھا جس کا انہوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا تھا ۔ یعنی اس کے فسق کا ذکر و اظہار کیونکہ کسی انسان کی اخروی فلاح اور ابدی نجات کا دارومدار اصل میں فطرت یعنی اسلام اور اس کے عقائد پر ہے ، جب کہ اس شخص نے ایک ایسا عمل بھی کیا تھا ۔ جو اعمال اسلام میں سے ہے اور اس کے مسلمان ہونے کو ثابت کرنے کے لئے تنہا وہی عمل کافی ہے ۔